فواد حسن فواد کا موقف ہے کہ وہ پلازے کے حصہ دار نہیں ہیں اور اس پلازے کی مالک کمپنی میں اُن کے بھائی اور بیوی کے حصے ہیں۔ ویسے فواد حسن فواد اور کامران کیانی کے ماں باپ بڑے غریب تھے مگر جب غریب خاندان کا کوئی بھی فرد ملک کی طاقتور مافیا کا حصہ بن جائے تو غریب بہن بھائی ارب پتی ہو ہی جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائرڈ اعلیٰ افسران سیاستدانوں اور افسران کے بڑے بڑے گھروں اور شاپنگ پلازوں کے ماتھے پر ھذا من فضل ربی کی تختی آویزاں رہتی ہے۔ آج جو پوسٹنگز اور ترقیاں ہو رہی ہیں وہ بھی ایک مخصوص گروپ کی ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کی بیورو کریسی کے متعلق اکثر سنتے ہیں کہ ان کی گردنوں میں سریا ہوتا ہے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس کو پڑھے لکھے نوجوان اِسی لیے جائن کرتے تھے کہ یہاں پروموشن میں ٹائم سکیل ہے۔ ایک 17 گریڈ میں بھرتی ہونے والا افسر 21 اور 22 گریڈ میں ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ جاتا تھا۔ ایڈمنسٹریٹو سروس ایک منظم اور ڈسپلن ادارہ تھا اور اس کو کسی حد آرمی کی ڈسپلنڈ سروس کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اِس سروس کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ بھٹو صاحب نے 313 افسروں کو نوکریوں سے نکالا۔ یحییٰ خان نے بھی اپنے ناپسندیدہ افسروں کو نوکریوں سے فارغ کیا ۔ مشرف نے ضلعی حکومتوں کا نظام لا کر ڈی ایم جی کی سروس کو تباہ کیا تو مقابلے کے امتحان میں یہ تیسرے نمبر کی ترجیح بن گئی۔
شہباز شریف نے جونیئر افسران کو پروموٹ کر کے اُنکو فیصلہ سازی کے اختیار دے کر ان افسران کی ذہانت اور قابلیت کو تباہ کر دیا۔ ایسی ایک مثال احد چیمہ کی ہے کہ وہ گریڈ اٹھارہ کے افسر ہونے کے باوجود گریڈ بیس کے عہدوں پر کام کرتے تھے۔ فواد حسن فواد بھی گریڈ 20 میں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بن گئے۔ یہی حال موجود پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعظم کا ہے کہ یہ عہدہ گریڈ 22 کا ہے مگر وہ گریڈ 21 میں اِسی عہدے پر براجمان ہیں اور گریڈ 22 کے افسران کے تبادلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایڈمنسٹریٹو سروس میں بہت سارے افسران نااہل، سست یا کرپٹ ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اُن کی سروس کا سٹرکچر ہی تباہ کردیا جائے۔ یک مشت ان کی 600 پوسٹیں ختم کر دی جائیں اور 20 سال کی مدت کے بعد اُنہیں جبری ریٹائر کردیا جائے۔ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ملک کے قابل اور تعلیم یافتہ نوجوان اس سروس کو جوائن کریں۔ جہاں مستقبل میں غیر یقینی کیفیت ہو۔ وہ موجود حکومت کے بزرجمہروں کا خیا ل ہے کہ ایڈمنسٹریٹو سروس کو بھی آرمی کی طرح بنایا جائے گا۔ آرمی میں اگر کوئی افسر سپر سیڈ ہو کر ریٹائر ہوتا ہے تو میجر، کرنل اور بریگیڈئر کے رینک میں اس کو اچھی خاصی مالی مراعات مل جاتی ہیں۔
اب اگر ایک قابل ترین نوجوان جو باہر کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر پاکستان میں اگر مقابلے کے امتحان میں شریک ہو اور لاکھوں روپے کی پرائیویٹ سیکٹر کو ملازمتیں چھوڑ کر اس آس پر ایڈمنسٹریٹو سروس کو جائن کرے کہ ایک دن وہ طاقتورسماجی حیثیت کا حامل ہو گا۔ مگر اس کو 40 یا 45 سال کی عمر میں ریٹائر کر دیا جائے یا نیب اس کو پکڑ کر جیل بھیج دے تو وہ کیوں ایسی ملازمت کوجوائن کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے امتحان میں پرانے بیورو کریٹس اور پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے شریک نہیں ہو رہے ہیں۔ وہ فنی تعلیم حاصل کر کے غیر ممالک میں اعلیٰ کمپنیوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔ برین ڈرین کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ بہت سے افسران جو اپنی پروفیشنل ڈگریوں کی بنیاد پر دوسرے ممالک میں اہم عہدے حاصل کر سکتے تھے، قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر بننے کے لیے پاکستان آئے۔
سول سروس میں شامل ہوئے جو خوش قسمت تھے نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے دورمیں 22 گریڈ پر پہنچ کر فیڈرل میں دو دو رہائشی پلاٹس کے مالک بن گئے مگر اُن کے بعد سروس میں خصوصاً پنجاب کے کوٹے سے آنے والے افسران پر موجودہ حکومت نے ’’سکائی لیب گرا دیا ہے پنجاب کا نوجوان کوٹہ سسٹم کی وجہ سے پہلی دس بیس پوزیشنوں پر آنے کے بعد اِس سروس کا حصہ ٹھہراتا ہے مگر دوسرے صوبوں میں بہت نچلے درجے یا آرمی کے کوٹے پر بغیر امتحان دئیے ایڈمنسٹریٹو سروس میں آنے والے آج چھائے ہوئے ہیں۔
پہلے ہی بیورو کریٹس کی کثیر تعداد نیب کے خوف سے کام کرنے سے قاصر ہے۔ اب اگر ایک افسر کو اگلے گریڈ کے لیے مشکل سے مشکل مراحل سے گزارنے کے بہانے سپرسیڈ کی تلوار لٹکائی جائے گی تو پھر سمجھیں کہ آج کے بعد ایسی سروس میں شاید ہی کوئی ذہین نوجوان شمولیت اختیار کرنے پر غورکرے۔ اصلاحات درجہ بدرجہ ہوتی ہیں۔ اصلاحات کے عملی نفاذ کے لیے حکمرانوں میں غیر جانبداری کا جذبہ ہونا چاہئے۔
نواز شریف کے دور میں اعلیٰ بیوروکریٹک پوزیشنوں پر اُن کے ذاتی غلام افسران کا قبضہ تھا۔ اب خیبرپختونخواہ کے ڈومیسائل کے حامل افسران چھائے ہوئے ہیں۔ جب کہ سینکڑوں افسران جن کی کوئی سفارش نہیں ہے تمام تر اہلیت اور قابلیت کے باوجود ’’خان گروپ‘‘ سے ناآشنائی کی وجہ سے دو دو سالوں سے او ۔ ایس ۔ ڈی ہیں۔ چند سینئر بیورو کریٹس کا کہنا ہے کہ کسی چیز کی خصوصیات کا اندازہ اُسکے استعمال کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اعلیٰ سطحی پروموشن بورڈز جس کی صدارت وزیراعظم کرتے ہیں کی موجودہ پروموشنز میں میرٹ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ جس طرح مشرف کے دور میں جنرل نقوی کے دماغ سے ضلعی حکومتوں کا ناکام تجربہ کیا گیا۔ اب عشرت حسین کے زرخیز دماغ سے بیوروکریسی کے اعلیٰ سروس میں تجربات کی پٹاری کھول دی گئی ہے۔
………………… (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024