بھارت کو اسلحہ کی بڑی کھیپ کی فروخت اور امن کی خاطر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات امریکی دہری پالیسی کا شاہکار ہے
مودی کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ کا کشمیر پرثالثی کی پیشکش کا اعادہ اور بھارت میں مسلم کش فسادات کا نیا سلسلہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر بھارت اور پاکستان کے مابین ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ گزشتہ روز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد انکے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ دہشت گردی ایک مسئلہ ہے‘ تاہم انکے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ بہت ہی اچھے مراسم ہیں‘ کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کے حوالے سے میں جو کچھ کر سکتا ہوں‘ اس کیلئے تیار ہوں۔ انکے بقول تنازعہ کشمیر کانٹے کی طرح ہے جسے حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کے حوالے سے کہا کہ یہ معاہدہ اس سال کے اختتام تک متوقع ہے تاہم میں چاہتا ہوں کہ امریکہ کو منصفانہ طریقے سے ڈیل کیا جائے۔ بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق جب ٹرمپ سے دہلی میں پرتشدد مظاہروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملہ پر وزیراعظم مودی سے بات کی ہے‘ انکے بقول یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملہ کو کس طرح ڈیل کرتا ہے۔ ہم نے مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔ مودی چاہتے ہیں کہ لوگوں کو مذہبی آزادیاں حاصل رہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ ہم اپنے شہریوں کو بنیاد پرست دہشت گردی سے بچانے کیلئے پرعزم ہیں۔ اس ضمن میں امریکہ اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ نتیجہ خیز کام کررہا ہے۔ اس حوالے سے انکی مودی کے ساتھ پاکستان کے بارے میں بہت گفتگو ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے ایک سوال کے جواب میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ اس مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دونوں ممالک کے مابین ہونیوالے جنگی آلات کے معاہدے سے متعلق اعلانات کئے گئے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر اپنے دورۂ بھارت کے دوران وزیراعظم مودی کی تعریفیں کرنے اور چین کو خطرہ قرار دینے کی باتیں کرنے کے باعث بھارت کو تین ارب ڈالر کے جنگی ہتھیار فروخت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول امریکہ اور بھارت ایک بڑے تجارتی معاہدے پر بھی پیش رفت کرنے جارہے ہیں۔
یہ حقیقت تو اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ بھارت اس خطے میں قیام امن کیلئے کوششیں بروئے کار لانے کے مقاصد کے تحت نہیں بلکہ بھارت کو امریکی جدید اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ کی فروخت کے مقاصد کے تحت کیا گیا جس میں وہ کامیاب بھی رہے چنانچہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں بطور خاص اس معاہدے کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ بھارت امریکہ سے میزائل ٹیکنالوجی سمیت 24 سی ہاک اور چھ اپاچی ہیلی کاپٹر خریدے گا۔ ان ہتھیاروں کے حصول کے بعد بھارت کی جنونی مودی سرکار مسئلہ کشمیر حل کرکے پاکستان کے ساتھ امن سے رہنے کی جانب پیشرفت کریگی یا اپنی گیدڑ بھبکیوں کیمطابق پاکستان پر جنگ مسلط کرکے اسکی سلامتی تاراج کرنے کے خواب شرمندۂ تعبیر بنائے گی؟ اور مقبوضہ وادی کی طرح پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی اپنا تسلط جمانے کی کوشش کریگی؟ اس صورتحال میں ٹرمپ کا مودی کیساتھ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر کشمیر ایشو پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش دہرانا اور اس دیرینہ مسئلہ کے حل کی خواہش کا اظہار کرنا بھی بھارتی منشاء کے ہی تابع نظر آتا ہے اور یہ حل وہی ہو سکتا ہے جو بھارت کیلئے قابل قبول ہو جبکہ بھارت کی مودی سرکار پہلے ہی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیکر‘ اسکی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اور اسے بھارت میں ضم کرکے اپنے تئیں کشمیر کا ٹنٹا ختم کرچکی ہے۔ اب اسکے اگلے عزائم آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر شب خون مارنے کے ہیں جنہیں بھارت پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنی مقبوضہ وادیٔ کشمیر کا حصہ قرار دے رہی ہے اور پاکستان کو دس دن کے اندر اندر ٹوپل کرنے کی بڑ بھی مار رہی ہے۔ اس تناظر میں ٹرمپ کا مودی کی موجودگی میں کشمیر ایشو پر ثالثی کی پیشکش دہرانا اور مودی کا اس پر خاموش رہنا اس امر کا واضح عندیہ ہے کہ ٹرمپ نے مودی کو انکی منشاء کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کا یقین دلا کر انکی موجودگی میں ثالثی کی پیشکش کی ہوگی ورنہ جو مودی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے موقع پر ثالثی کی پیشکش پر آگ بگولہ ہوئے اور انہوں نے آناً فاناً کشمیر کو ہڑپ کرنے کیلئے پانچ اگست 2019ء کو بھارتی آئین سے دفعات 370‘ اور 35اے حذف کرادیں‘ وہ اپنی موجودگی میں کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پر بھلا خاموش کیسے رہ سکتے تھے۔
اس وقت بھارتی دارالحکومت دہلی اور بھارت کے دوسرے شہروں میں مودی سرکار کی سرپرستی میں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور مودی سرکار کے پروردہ ہندو انتہاء پسندوں کیجانب سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں اب تک دو درجن سے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں‘ مسلمانوں کی املاک پر بے دریغ حملے کرکے انہیں تباہ کیا اور جلایا جاچکا ہے اور مساجد تک پر حملوں اور وہاں ترنگا لہرانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا‘ یہ احمدآباد کی جلسہ گاہ میں امریکی صدر ٹرمپ کے دیئے گئے اس بیان کا ہی شاخسانہ ہے جسکے تحت انہوں نے مبینہ اسلامی دہشت گردی کو امریکہ اور بھارت کیلئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ اس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے انکی اور مودی کی ایک ہی سوچ ہے چنانچہ ہندو انتہاء پسندوں نے یہ ہرزہ سرائی اپنے لئے آشیرباد سمجھ کر مسلمانوں پر بے دریغ حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو ابھی تک جاری ہے اور مودی نے ان حملوں کے بارے میں کوئی مذمتی بیان جاری کرنا بھی ضروری نہیں گردانا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھارت امریکی جدید ہتھیاروں سے لیس ہو جائیگا تو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا حشر نہیں اٹھائے گا۔
ٹرمپ کے دورۂ بھارت کے موقع پر اسے ہر قسم کے اسلحہ کی فراہمی اور پھر قیام امن کیلئے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات ایک دوسرے سے قطعی متضاد ہے جبکہ ٹرمپ نے مودی کی تعریفوں کے پل باندھ کر‘ بھارت کے ساتھ امریکی وفاداری برقرار رکھنے کا عہد کرکے اور پھر وزیراعظم پاکستان عمران خان کو اپنا بہترین دوست قرار دیکر درحقیقت امریکی دہری پالیسی کی عکاسی کی جبکہ انہوں نے درحقیقت بھارت کو امریکی اسلحہ کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی بنایا اور اس طرح اسے کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ علاقے کا تھانیدار بن کر جیسے چاہے راج کرے اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈا کے تحت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کرے۔ یہ پالیسی علاقائی امن کے قیام کے بجائے مودی کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن تہس نہس کرانے کی ہے جس کی بنیاد پر بھارت کی جانب سے کشمیر کو مکمل ہڑپ کرنا ہی مسئلہ کشمیر کا حل ہوگا جس کا مودی سرکار پہلے بھی اظہار کرتی رہتی ہے۔
آج بھارت میں جس وحشیانہ پن کے ساتھ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے‘ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کو طویل ترین کرفیو کے ذریعے گھروں میں محصور کرکے‘ ان سے زندگی کی رمق چھین کر اور کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی جانب سے شہری آبادیوں پر تسلسل کے ساتھ گولہ باری کرکے جس جنونیت کے ساتھ پاکستان بھارت کشیدگی کا ماحول گرمایا جارہا ہے‘ اس میں ٹرمپ کی ہلہ شیری کے بعد اب مزید اضافہ ہوگا اور بھارتی مسلمانوں کی مزید کمبختی آئیگی جس کی جھلک گزشتہ چار روز سے بھارت میں ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کیخلاف جاری بلوئوں کی صورت میںواضح طور پر نظر آرہی ہے اس لئے اب اس خطہ میں بدامنی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے جو بالآخر پاکستان بھارت باقاعدہ جنگ کی نوبت لا سکتی ہے۔ یہ جنگ لامحالہ ایٹمی جنگ ہوگی جس کے مضمرات سے وزیراعظم عمران خان گزشتہ سال ستمبر میں یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کے دوران واضح طور پر عالمی قیادتوں کو آگاہ کرچکے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران بھارت کے ساتھ تین ارب ڈالر کے جنگی سازوسامان کی فراہمی کے معاہدے کرکے بھارت کو امن کی راہ دکھانے کے بجائے اسکے پاکستان کی سلامتی اور خطے کا امن و امان برباد کرنے کے عزائم کو مہمیز لگائی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے اپنے دفاع کیلئے چین اور روس جیسے اپنے قابل اعتماد دوستوں کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے کی متقاضی ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اب اسی تناظر میں ازسرنو تعین ہونا چاہیے۔ ٹرمپ کو اس خطے کا امن مقصود ہوتا تو وہ بھارت کے بجائے پاکستان کا دورہ کرنے کو ترجیح دیتے جس کی معاونت سے امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغان امن عمل میں کامیاب ہورہا ہے۔ اندریں حالات ٹرمپ کا بھارت جا کر ہندو انتہاء پسند مودی سرکار کے ساتھ جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کے معاہدے کرنا اور پاکستان کے ساتھ دوستی کا اظہار کرنا امریکی ریاکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے جو پاکستان 71ء کی جنگ میں بھی بھگت چکا ہے اور کمک کیلئے ساتواں امریکی بحری بیڑہ آنے کی امید میں سانحہ سقوطِ ڈھاکہ سے دوچار ہوچکا ہے۔ ہمیں اب بہرصورت ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کی روشنی میں اپنی دفاعی پالیسی مرتب کرنا ہوگی جس کیلئے تمام سول اور عسکری قیادتوں اور قومی ریاستی اداروں کا باہم یکجہت ہونا ضروری ہے۔