جمعرات 2؍ رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 27 ؍ فروری 2020 ء
کرونا کا خوف ، پاکستان نے تفتان بارڈر بند کر دیا ۔
حکومت ابھی سے آنکھیں کھول لے۔ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کے تمام انتظامات مکمل رکھے۔ کیونکہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ وباء کے پھیلنے کے بعد جب ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں تب ہوتا ہے۔ ابھی وقت ہے محکمہ صحت الرٹ ہو جائے اور کرونا کے مقابلے کے لیے حفاظتی عملے اور ہسپتال تیار رکھے۔ ایران اور افغانستان کے دروازے ہمارے آنگن میں کھلتے ہیں ۔ ان پر تو چلیں بارڈز بند کر کے یا وہاں حفاظتی اقدامات کر کے ہم مریضوں کی شناخت کر سکتے ہیں مگر یہ جو غیر قانونی سینکڑوں سوراخ دیواروں میں ہیں ان سے جو لوگ چھپ کر آتے جاتے ہیں ان کی روک تھام کا کیا بندوبست ہو گا۔ وہاں سے آمدورفت کون روکے گا۔ چمن ، طورخم اور تفتان بارڈز بند ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر سینکڑوں لوگ ایران اور افغانستان سے باسانی پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں سے وہاں جاتے ہیں۔ یعنی ان کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں۔ اب کروناکے خوف سے پاکستان سے تو کوئی احمق یا پاگل بھی ایران جانے کا نہیں سوچے گا۔ مگر وہاں سے آنے والوں کا کیا پتہ کون کون کرونا بمبار بن کر ہمارے ہاں آن گھسے ۔ حکومت تو ابھی تک چین میں پھنسے پاکستانی طلباء کو جو ہمارے جگر کا ٹکڑا ہیں کرونا وائرس کے خوف سے واپس نہیں لا رہی۔ حالانکہ بقول پاکستان و چین وہ سب محفوظ ہیں۔ اچھا ہوتا کہ ان کو مکمل سکریننگ کے بعد کلیئر ہونے کی صورت میں واپس بلایا جاتا۔ آخر باقی ممالک نے بھی تو ایسا ہی کیا ہے۔
٭٭٭٭
پنڈی سٹیڈیم میں کرکٹروں کی پتنگ بازی
سچی بات تو یہ ہے کہ کرکٹر ہو یا فٹبالر‘ باکسر ہو یا ہاکی پلیئر سب نے بچپن کے ایام میں گیند‘ بلا‘ ہاکی کھیلنے کیلئے گلوز تو نہیں پہنے ہونگے مگر گلی ڈنڈا یا پتنگ ضرور اڑائی ہوگی۔ ہوا میں ناچتی ہوئی یہ تیر کمان جیسی پتنگ آج بھی بچوں کو اچھی لگتی ہے۔ یہ تو برا ہو اس ڈور مافیا کا جنہوں نے اس بے ضرر کھیل کو دھاتی تار اور خطرناک تیز شیشے والی ڈور سے مزین کرکے موت کا کھیل بنا دیا۔ دنیا بھر میں پتنگ اڑائی جاتی ہے مگر گلے کاٹنے والی ڈور کہیں تیار نہیں ہوتی۔ اب بجائے اس کے کہ ڈور مافیا کا قلع قمع کیا جاتا‘ ہم نے اس عام سے کھیل کا ہی کام تمام کر دیا۔ یہ تو اس کھیل پر پابندی کی ایک وجہ ہے ‘ اس کے علاوہ بسنت کے نام پر کئی روز جو طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے‘ ہوائی فائرنگ ہوتی ہے‘ تیز آواز میں گانے بجانے کا شغل ہوتا ہے‘ رات بھر فائرنگ اور میوزک کے اس سنگین ملاپ نے بھی اس کھیل کے خاتمے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود جب بچے جوان ہوکر کسی بھی فیلڈ میں نام کماتے ہیں‘ تب بھی ان کے اندر کی پتنگ اڑانے کی معصوم خواہش موجود ہوتی ہے اور موقع ملتے ہی وہ اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب راولپنڈی سٹیڈیم میں کرکٹر فہیم اشرف اور موسیٰ خان نے اگر سٹیڈیم میں کچھ دیر پتنگ بازی کی تواس پر زیادہ شور مچانے کی ضرورت نہیں۔ وہاں کوئی دھاتی تار یا تیز مانجھا نہیں تھا۔ عام ڈور یا پھر تکیے رضائی سینے والی نلکی یا ریل سے انہوں نے پتنگ اڑائی ہوگی‘ اس طرح دل پشاوری کر لیا ہوگا۔ سٹیڈیم اتنا بڑا ہے کہ یہ کھیل ہم کہہ سکتے ہیں چاردیواری کے اندر ہی رہا ہوگا۔
٭٭٭٭
خیبر پی کے اسمبلی میں پھر ہنگامہ۔ اپوزیشن ارکان پتھر بھی ساتھ لائے
شکر ہے یہ پتھر کسی پر پھینکنے یا کسی کو مارنے کے لیے نہیں لائے گئے تھے۔ یہ صرف احتجاج کے دوران ڈیسک بجانے کے لیے لائے گئے تھے۔ حکومتی ارکان تو ان کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے تھے۔ مگر …؎
ایک پتھر جو دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
کی حسرت ہی رہ گئی۔ پھول کی بجائے یہ پتھر ڈھول بجانے کے لیے استعمال ہونے لگے۔ آج کل خیبر پی کے صوبائی اسمبلی میں احتجاج کچھ زیادہ ہی زور دار ہونے لگا ہے۔ اپوزیشن والے کبھی چھوٹا لائوڈ سپیکر لے کے ایوان میں آ جاتے ہیں۔ اس پر خوب نعرے بازی ہوتی ہے۔ کبھی سیٹیاں بجانے لگتے ہیں۔ نعرے بازی اور بائیکاٹ تو روزانہ کا معمول ہے۔ مگر یہ جو پتھروں سے ڈیسک بجانے والا معاملہ ہے یہ کافی سنگین ہے۔ کیا معلوم کب کس کا دل چاہے اور یہ پتھر چاند ماری کے لیے استعمال ہونے لگیں۔ اس طرح خون خرابے کا خطرہ ہے۔ اگر یہ نہ بھی ہو پتھروں کی بدولت پیدا ہونے والی تیز آواز سے تو کانوں کے پردے پھٹنے لگتے ہوں گے۔ حکومتی ارکان اتنا شور شرابا کس طرح برداشت کر پاتے ہیں اور پھر اسمبلی کی کارروائی کس طرح چلتی ہو گی۔ کیا سب کانوں میں روئی ٹھونس کر آتے ہیں کہ انہیں یہ شور شرابا سنائی نہیں دیتا۔ مگر یہ سب کچھ ہوتا دکھائی تو ضرور دیتا ہو گا۔
٭٭٭٭
رات 12 بجے کے بعد ائیر پورٹ فلائٹ آپریشن بند کرنے پر غور
دروغ برگردن راوی ذرائع کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ بچت کے لیے کیا ہے یا بجلی بچانے کے لئے۔ کیونکہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے حکومت اس مد میں بچت کرنا چاہتی ہے۔ غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو بھی آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اب معلوم نہیں اس ’’دانشمندانہ‘‘ فیصلے پر عمل کب سے ہو گا۔ یہ تو سراسر سبکی والی بات ہے۔ عالمی برادری خاص طور پر تاجر سرمایہ کار اور صنعتکار اس بارے میں کیا سوچیں گے۔ ایک طرف ہم دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ حالت ہے کہ ہم ہوائی اڈوں کو بجلی فراہم کرنے سے قاصر ہیں تو صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کہاں سے آئے گی جو کسی بھی انڈسٹری کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ جب سرمایہ کار یہ بات سنیں گے تو ان کا ردعمل کیا ہو گا۔ آنا تو انہوں نے جہاز میں ہی ہوتا ہے۔ اب انہیں دن کی روشنی والی فلائٹ کا انتظار کرنا ہو گا جو دستیاب ہو گی تو وہ پاکستان آ پائیں گے۔ ورنہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کون یہاں آئے گا۔ حکومت اس کی بجائے اگر لائن لاسز کم کر کے فالتو بتیاں بجھانے، رات 9 بجے کے بعد تمام تجارتی مراکز بند کرنے کے احکامات پر سختی سے عمل کرائے تو کافی بجلی بچائی جا سکتی ہے جو ہمارے ہوائی اڈوں کو بند ہونے سے بچانے میں معاون ثابت ہو گی۔
٭٭٭٭