(1)۔ وہ وقت لد گیا ہے جب عورت کو مجبور، مقہور اور مظلوم سمجھا جاتا تھا۔ مشرق چھوڑ مغرب میں بھی لکھاریوں نے Weaker Vessale کے عنوان سے مضمون لکھے۔ مصور غم راشد الخیری نے ایسی دردناک کہانیاں لکھیں جس سے مردوں کی آنکھیں بھی پر نم ہوگئیں۔ وہ تو بھلا ہو عصمت چغتائی کا جس نے چٹ پٹے افسانے لکھ کر اس تاثر کو کافی حد تک زائل کیا۔ عدم نے کیا خوب کہا تھا
طاقتیں صرف دو ہیں دنیا میں جس سے سارا نظام جاری ہے
ایک خدا کا وجود برحق ہے، ایک عورت کی ذات بھاری ہے
عدم اس حقیقت کے بیان کرنے میں اکیلا نہ تھا۔ ولی دکنی سے لیکر غالب تک اور غالب سے لیکر فیض و فراز تک سب نے اس صنف کے مظالم کی داستانیں رقم کی ہیں اس کے باوصف کبھی ضابطہ و تعزیر کی گرفت میں نہ آئیں۔ع
شرع وآئین پر مدارسہی ، ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
ظالم، جفا جو، کینہ پرور جس کا توسن (گھوڑا) دریائے خوں میں تیرتا ہے با ایں ہمہ مظلوم کی آس نہیں ٹوٹتی فریاد بھی کرتا ہے تو کچھ یوں گمان ہوتا ہے۔ جیسے داد دے رہا ہو؎
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں میرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
تمام عمر ناروا سختیاں جھیل کر بھی آس نہیں ٹوٹتی، ایک موہوم سی امید سے سانس کی ڈوری بندھی رہتی ہے۔؎
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیئے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
(2)۔چلئے مان لیتے ہیں کہ یہ سب مبالغے ہیں، شاعرانہ تعلیاں ہیں۔ مست ملنگ لوگ جنہوں نے بے جا غزل کو نظم پر مسلط کیا۔ ایسے سر پھرے جو غم کو بھی خوراک سمجھ کر کھاتے تھے۔ کچھ مل گیا تو اس کو مقدر سمجھ لیا، وگرنہ فاقہ کشی کی حالت میں ہاتھ کو تکیہ بنا کر سو جاتے تھے۔
باایں ہمہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج کی عورت مرد کے مقابلے میں بہت طاقتور ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ منجملہ حقوق صنف نازک نے جدوجہد کر کے حاصل نہیں کئے بلکہ مردوں نے چاندی کی طشتری میں سجا کر انہیں پیش کئے ہیں۔ بات کہیں سے بھی شروع کریں، منتج ایک ہی نقطے پر ہوتی ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔
Chivalrlous Disposition اچھی چیز ہے لیکن Abject Subjugation نہیں ہونی چاہئے، جب بھی کوئی اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے۔ اس پر Misogyniast (عورتوں سے نفرت کرنے والا) کا لیبل لگ جاتا ہے۔ چار سو طنز و تشنیع کے نشتر پرسنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن حقائق سے نہ تو انحراف کیا جاسکتا ہے اور نہ اغماض برتا جاسکتا ہے۔ چونکہ ایک طویل عرصہ تک مغرب نے مشرقی ملکوں کو غلام بنائے رکھا، یہاں کے باشندوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا، اس لئے ابتدا بھی وہیں سے کرتے ہیں۔
مغرب کی عورت بڑی خود سر خود اور پر غرور ہے۔ وہ مرد کو پائوں کی جوتی تو نہیں سمجھتی لیکن ضرورت پڑنے پر وہ جوتی استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتی، مرد اپنی آزادی خود داری اور معاشی موت کا پروانہ تو روز اول ہی لکھ کر دے دیتا ہے۔ اونچا وہ نہیں بول سکتا، ہاتھ اٹھانے کی ویسے ہی ممانعت ہے۔ بس ایک فون کال۔ پولیس چشم زدن میں آٹپکتی ہے۔ تمہاری یہ ہمت! خاوند ہتھکڑی کا طوق پہنے تھانے پہنچ جاتا ہے۔ یہ پابندی ’’نصف بہتر‘‘ پر نہیں، وہ چاہے تو ایش ٹرے اٹھا کر خاوند کے ماتھے کو گلنار کرسکتی ہے، جیسے ہلیری کلنٹن نے اپنے شوہر نامدار کو مارا تھا۔ امریکی صدر کو دنیا کا طاقت ور ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔ وہ بے چارہ بتقاضائے بشریت گناہ بے لذت کر بیٹھا۔ عینی شاہد کے مطابق اس نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہ کیا۔ ایش ٹرے اٹھا کر ہلیری کو دیا اور عاجزانہ لہجے میں بولا۔ شاید حضور کا غصہ ہنوز ٹھنڈا نہیں ہوا۔؎
کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیدار کہ ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے
جیکی کینیڈی کا دوسرا خاوند گریک ٹائیکونی ورسٹائل انائونسر بغیر دروازہ کھٹکھٹائے اس کے کمرے میں داخل ہوگیا، جیکی غصے سے دہری ہوگئی۔ تکیہ اٹھا کر اس کے منہ پر دے مارا بولی۔
Get Out from the Room, You Have intruded into My Privacyجب نہایت ہی ذاتی معاملہ اخباروں کی زینت بنا تو اسکی سب سے زیادہ خوشی پاکستانیوں کو ہوئی۔ بڑی جذباتی قوم ہے۔ جب انکی شادی ہوئی تو سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار بھی اہل وطن نے کیا اکثر لوگ کہتے سنے گئے ’’کینیڈی دی سوانڑی (بیوی) سی‘‘ اسے ایک بوڑھے کھوسٹ سے شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک عجیب قسم کا جذباتی رشتہ انہوں نے خوبصورت بیوہ سے جوڑ رکھا تھا۔ جب سے اس نے خوشگوار لمحوں میں ایوب خان کی قراقلی ٹوپی سر پر سجائی تھی۔ اپنائیت ساری قوم کے رگ و پے میں سرائیت کر گئی تھی۔ طلاق کی صورت میں مرد کا کچھ نہیں بچتا۔ تمام عمر کی کمائی بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ عدالتیں خاوند پر اس قدر بوجھ ڈال رہتی ہیں جتنا ہمارے ہاں کمہار نحیف گدھوں پر ڈالتے ہیں۔ دنیا کے نامور گاف پلیئر ٹانیگر وڈ کی مثال لے لیں۔ طلاق کے بعد دولت کی ہری بھری شاخیں بیوی کو مل گئی ہیں۔ اب وہ صرف وڈ ہے۔ (Dead Wood) دولت کے ساتھ شہرت بھی چلی گئی ہے۔
(3)۔ جتنے بھی مروجہ قوانین ہیں، ان میں عورت کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے بالفرض میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو خاوند کو قصووار متصور کرلیا جاتا ہے۔ پولیس اسے پکڑ کر لے جاتی ہے۔ وہ ہزار کہتا رہے۔ بیوی نے زیادتی کی ہے مگر یقین نہیں کیا جاتا۔ انگریزوں کے ہاں بیوی کو Better Half (نصف بہتر) کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاوند is Not Even Half of Her -ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگے جب سے Sexual Harrasment کا قانون آیا ہے۔ (it has it has Broken the Camel's Back)مرد بے بس ہوگیا ہے اپنی صفایاں دیتے دیتے ہلکان ہو جاتا ہے۔ پگڑی اچھل کر زمین پر نہیں گرتی گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔ امریکہ میں ایک نامور نیگرو وکیل کو سپریم کورٹ کا جج تجویز کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے صدر امریکہ سوچ سمجھ کر اور بڑی چھان بین سے ایسا کرتا ہے۔ جب اس کا نام منظوری کے لئے سینٹ میں جاتا ہے تو ایک عورت درخواست دے دیتی ہے کہ اس بدقماش شخص کو جج نہ بنایا جائے کیونکہ اس نے 12 سال قبل مجھے ایک گندہ لطیفہ سنایا تھا۔ سینٹ اس کی نامزدگی روک کر انکوائری شروع کردیتی ہے۔ تحقیق پر وہ عورت صریحاً جھوٹی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن اس اثناء میں درخواست گزار کے دو مقاصد پورے ہو جاتے ہیں اسے ایک ٹکہ خرچ کئے بغیر ساری دنیا میں پبلسٹی مل جاتی ہے اور جج تعیناتی سے پہلے ہی بد نامیاں سمیٹ لیتا ہے۔ عورت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ IMF کا صدر نیویارک کے ہوٹل سے نکل کر پیرس جانے والے جہاز میں بیٹھتا ہے۔ تمام تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے ہے کہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں اس کی کامیابی یقینی ہے۔ پولیس جہاز میں داخل ہو کر اسے گرفتار کرلیتی ہے۔ ہوٹل کے کمروں کی صفائی کرنے والی عورت نے الزام لگایا کہ ملزم نے اس سے چھیڑ چھاڑ کی۔موصوف کو IMF کی سربراہی سے استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ فرانس کی صدارت ایک خواب بن جاتی ہے۔ اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ تفتیش پر پتہ چلتا ہے کہ وہ افریقی عورت ایک بلیک میلر تھی فون پر اپنے دوست کو بتاتی ہے۔ تم دیکھتے جائو! میں اس سے خطیر رقم اینٹھوں گی اس عورت کے خلاف کذب بیانی پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ ایک بوڑھی عورت سے کافی کا کپ گر جاتا ہے۔ اس کی ٹانگوں پر Third Degree Burns آتے ہیں۔ عدالت میکڈونلڈ کو ایک ارب روپیہ جرمانہ کرتی ہے۔ اس عورت نے ساری زندگی اتنی خطیر رقم نہ کمائی تھی۔ ایک عورت لاس اینجلیس میں مقامی ریسٹورنٹ پر مقدمہ کرتی ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے اس کی پلیٹ پر مکھی بیٹھی اسے کراہت محسوس ہوئی۔ وہ حاملہ ہے اس سے اس کے بچہ کی شخصیت پر اثر پڑے گا۔ ڈیڑھ کروڑ روپے ہرجانہ دیکر مالک کی گلو خلاصی ہوتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملتا ہے۔ ایسا انعام جو شاعر مشرق کو نہ مل سکا۔ وہ محترمہ جو کبھی قانون کی سنگلاخ زمین میں بھٹکتی پھرتی تھی‘ عدالت عظمیٰ کو للکار رہی ہے۔عائشہ گلالئی کو ہی لے لیں، ایک رات میں ملک کی ’’مقبول اور نامور‘‘ شخصیت بن گئی ہے۔ عمران خان نے انہیں قابل اعتراض پیغامات بھیجے تھے۔ پانچ سال تک وہ کیا کرتی رہیں؟ انہوں نے پارٹی کیوں نہ چھوڑی؟ پیغام نہیں بتاتی۔ بس باتیں کرتی جاتی ہے۔ بھٹو مرحوم بلی کو تھیلے میں رکھنے کا جو نسخہ کیمیا بتا گئے تھے۔ عائشہ جی کی بلی تو شاید کبھی باہر نہ نکل پائے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن خود ہی تھیلہ بند ہو جائیں۔
(4)۔ عین ممکن ہے کہ حقوق نسواں کے علم بردار صدائے احتجاج بلند کریں۔ راقم کو سنکی، سڑیل اور مخبوط الحواس قرار دیں۔ ہر مثال اور دلیل کا توڑ پیش کریں۔ مغرب کی اکا دکا مثالوں سے چند مد قوق مفروضوں سے عورت کا مقام اور مرتبہ گھٹایا نہیں جاسکتا۔ عدم نے تو یہ بھی کہا تھا کہ ’’ایک فاقے کو ٹالنے کے لئے‘‘ اسے کن جاں سوز مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مرد کی حیوانیت کے قصے آئے دن اخباروں میں چھپتے رہتے ہیں۔ جنگل کے جانور اس قدر سفاک نہیں ہوتے جتنے انسان ہیں۔ تاریخ کے صفحات اس کی بربریت سے بھرے پڑے ہیں۔ ٹرائے کی سات سالہ خونی جنگ کی ذمہ دار ہیلن نہیں بلکہ پارس تھا۔ کیا اس نے ساحر نہیں پڑھا۔ جس نے ثناء خواں تقدیس مشرق کو پکارا اور لتاڑا تھا۔ پہلوے شاہ میں دختر جمہور (نور جہاں) کی قبر کتنے خونریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب۔ کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے! دراصل یہ مرحلہ عمر ہے جس میں تنقید اورتنقیص کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔ غلط بحث چھیڑ کر سستی شہرت حاصل کرنے کا یہ بھونڈا طریقہ ہے۔ چلئے یہ استدلال مان لیتے ہیں۔ لیکن جس معاشرے میں انسانوں کے سایے ان کے قد سے دراز ہو جائیں جہاں زبان کٹ جائے مدح ستم گراں کرتے، جہاں ضمیر بک جائیں، اسباب مفلساں کی طرح۔ جہاں انصاف ایک انعام کی شکل اختیار کرجائے جہاں قبائے دیں ابوجہل نے سجالی ہو،وہاں پر ایسی بے ضرر بحث ہی چھیڑی جاسکتی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024