بھرتیوں میں غیر شفافیت برتی گئی تو آرٹیکل 62 ون ایف کی کارروائی ہو سکتی ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے عطاالحق قاسمی کی بطور چیئرمین پی ٹی وی تقرری سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ،عدالت نے عطاالحق قاسمی اور اْنکے صاحبزادے یاسر پیرزادہ کو 2سا ل میں دی گئی مراعات کا آڈٹ کروانے کا فیصلہ کر تے ہوئے آڈٹ کروانے کیلئے 5مارچ کو ٹرمز آف ریفرنس طلب کر لیے گئے ہیں، دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے کہاہے کہ اگر بھرتیوں میں غیر شفافیت برتی گئی تو کیا اس پر آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا ؟دیانتداری اور بد دیانتی عمل سے ظاہر ہوتی ہے ،بد دیانتی پر آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے ،کیا اسطرح کی طرز حکمرانی کیلئے حکومت دی گئی تھی؟ہم بندر بانٹ نہیں ہونے دیں گے، عطاالحق قاسمی کو27 کروڑ کس مد میں دیے گئے آڈٹ کرائیں گے قومی خزانے سے دی گئی رقم کا حساب دینا ہوگا،وضاحت ہونی چاہیے ،عطاالحق قاسمی کے بیٹے کو 8 لاکھ 50 ہزار روپے سکرپٹ رائٹنگ دیا جاتا رہا، اْنکا بیٹا ایف بی آر میں بھی ملازم رہاہے ،پیر کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید،وزیر اعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد اور سیکرٹری اطلاعات کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے بتایا لوک ورثہ ،پی این سی اے ،پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز اور پاکستا ن ٹیلی ویثرن کارپوریشن کے سربراہان کی تقرری کیلئے حد عمر کی معیاد میں اضافہ کیا گیا۔ سرکاری وکیل کی طرف سے عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ عطاالحق قاسمی کا نام سابق وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کی جانب سے دیا گیا،جس پرجسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ سرکاری ملازمت یا پبلک آفس ہولڈر کیلئے طریقہ کار طے ہے۔چیف جسٹس نے کہا یہ بات تسلیم کی جارہی ہے سابق وزیر اطلاعات نے عطاء الحق قاسمی کا نام بطور چیئرمین پی ٹی وی دیا۔عدالت نے پوچھا جن چار اداروں کے سربراہان کی تقرری کیلئے حد عمر میں اضافہ کیا گیا اْس بورڈ میٹنگ کے منٹس کہاں ہیں ؟توپرویزرشید نے جواب دیا میری یاداشت کے مطابق بورڈ کی جو میٹنگ ہوئی اْسکے منٹس ریکارڈ نہیں ہوئے،چیف جسٹس نے کہا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ نہیں ہوئی تو پھر بھرتی مکمل غیر قانونی ہے،بطور چیئرمین پی ٹی وی عطاالحق کی تقرری کے لیے بورڈ میٹنگ نہیں ہوئی آپ یہ بات تسلیم کررہے ہیں،وفاقی حکومت کے پاس چیرمین پی ٹی وی کی تقرری کی اتھارٹی کیسے آئی؟۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا 23 دسمبر 2015 کو وزیراعظم کا حکم نامہ وزارت اطلاعات کے پاس آیا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیٹر کو مدنظر رکھے بغیر عطاء الحق قاسمی کا نوٹفکیشن جاری کردیا گیا،ایسے لگتا ہے جیسے عطاالحق قاسمی کی تقرری میں نہ صرف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ کسی کو خوش کرنے کیلئے ایسا کیا گیا ،غیر مقبول جلد بازی کا مقابلہ کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا اگر عطاء الحق قاسمی کی تقرری میں بددیانتی ہوئی تو پرویز رشید صاحب آپ کو مقدمے کی سمجھ آرہی ہے؟ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا عطاالحق قاسمی کو مراعات دینے کی منظوری اْس وقت کے وزیراعظم نے کس قانون کے تحت دی؟ وزیر اعظم کے سیکرٹری نے کہا وزیر اعظم کے زبانی احکامات پر منظوری دی گئی۔اس پر چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہا کرتے ہوئے کہا کس قانون کے تحت وزیر اعظم کے زبانی احکامات کو مانا جاتا ہے ،کیوں نہ مقدمہ نیب کو بھیج دیں۔فواد حسن نے جواب دیا یہ پریکٹس میرے دور میں شروع نہیں ہوئی ،ہمیشہ سے وزیر اعظم کے زبانی احکامات پر منظوری ہوتی رہی ،گذشتہ د و دہائیوں سے ایسا ہوتا آرہا ہے۔چیف جسٹس نے فواد حسن فواد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا قانون میں آپ کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں کہ وزیراعظم کے زبانی احکامات پر منظوری دے دی جائے ،آپ جو بات کہ رہے ہیں اسے اپنے پاس لکھ لیتے ہیں،اگر وزیراعظم کل کسی زبانی دی گئی منظوری سے انکار کردے تو پھر کیا ہوگا؟اگر کوئی زبانی منظوری بین الاقوامی معاملے کی ہو تو کیا ہوگا؟امریکی صدر کے پاس کھوکھا الاٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے،کیا پاکستان میں بادشاہت ہے ؟نوازشریف آکر وضاحت دے دیں کیا ملک میں قانون کی حکمرانی ایسے ہوتی ہے؟سیکرٹری نے وزیراعظم کی طرف سے تقرری کی۔فواد حسن فواد نے کہا میرے اس بیان کو بطور بیان حلفی لیا جائے۔