الیکشن کمیشن میں اجلاس: انتخابی حلقہ بندیوں پر ہم سے مشاورت نہیں کی گئی‘ سیاسی جماعتوں نے تحفظات پیش کردئیے
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) الیکشن کمیشن نے پارلیمانی جماعتوں کے نمائندہ وفد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف، غیر جانبدارانہ اور بروقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے طے شدہ شیڈول کے مطابق حلقہ بندیوں کی تکمیل اور انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کا کام مئی 2018ء کے پہلے ہفتہ میں مکمل کر لے گا۔ پیر کو الیکشن کمیشن میں پارلیمانی جماعتوں کے اراکین کا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے کی۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران نے بھی شرکت کی۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے شرکاء کو بتایا کہ الیکشن کمیشن آئین و قانون کے مطابق مرحلہ وار وقت کے مطابق اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہ ہو رہا ہے۔ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو ممبران اور عہدیداران کی جانب سے حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کے حوالہ سے مکمل بریفنگ دی گئی۔ اراکین کو کمیشن کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ الیکشن کمیشن شفاف، غیر جانبدارانہ اور بروقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے طے شدہ شیڈول کے مطابق حلقہ بندیوں کی تکمیل اور انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کا کام مئی 2018ء کے پہلے ہفتہ میں مکمل کر لے گا۔ اس کے علاوہ خواتین کے شناختی کارڈ کے اجراء اور ووٹوں کے اندراج کے بارے میں اٹھائے گئے خصوصی اقدامات کے بارے میں بھی سیاسی پارٹیوں کے اراکین کو اعتماد میں لیا گیا۔ اراکین نے الیکشن کمیشن کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے اسے اپنے ہر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اجلاس میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق اپنے تحفظات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیئے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت بڑی سیاسی جماعتیں ان میں شامل تھیں۔سیاسی جماعتوںکا موقف تھا کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے بارے میں سیاسی جماعتوں سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی ہے جبکہ حلقہ بندیوں سے متعلق قوانین پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے انتخابی حلقوں میں 10فیصد سے زائد فرق ڈالا گیا اور بعض سیاسی جماعتوں کی پسند کے مطابق حلقہ بندیاں کی گئی ہیں،حلقہ بندیوں کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد عدالتوںمیں جانے بارے فیصلہ کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں انتخابی حلقہ بندیوں اورانتخابی فہرستوں سے متعلق قومی اسمبلی کی پارلیمانی سربراہوں کو بریفنگ دینے بعدصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی نے کہاکہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اس وقت میڈیا پر جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں اس پر پارلیمنٹرینز کو تحفظات ہیں اور ان تحفظات سے الیکشن کمیشن کو اگاہ کیا گیا ہے۔ سیاسی مخالفت رکھنے کی وجہ سے حلقوں میں ردوبدل کیا جا رہا ہے۔پارلیمنٹرینز کے تحفظا دور کرنا الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی کے پارلمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہاکہ یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ حلقوں میں 10فیصد تک فرق پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے اسی طرح جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن کے سامنے خواتین کی تصاویر پر مشتمل ووٹر لسٹوں کو امیدواروں کو فراہم کرنے کی ایک بار پھر مخالفت کی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دی جانے والے وضاحتوں سے مطمئن نہ ہونے پر جماعت اسلامی اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ الیکشن کمیشن حکام نے بتایا ہے کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے 300 سے زائد تجاویز سامنے آئی ہیں اس سلسلے میں پارلیمنٹرینز کو کسی بھی بات کا کوئی علم نہیں ہے ۔کراچی سمیت سندھ میں بعض حلقے کم جبکہ بعض حلقوں میں ووٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہے اس حوالے سے الیکشن کمیشن پر اعتراضات ہیں اور اگر اس حوالے سے کمیشن کے حکام کوئی مشورہ کرتے تو بہتر ہوتا ۔خواتین کے ووٹوں کے اندراج کے حوالے سے نادرہ کی کارکردگی بہت زیادہ مایوس کن ہے اور مرد خواتین ووٹرز میں اب بھی 12ملین کا فرق موجود ہے انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن بعض سیاسی جماعتوں کی مرضی کے مطابق حلقہ بندیاں کر رہا ہے جو تحریک انصاف کو کسی صورت بھی قبول نہیں ہے ۔ اس حوالے سے پارٹی کی سینئر لیڈر شپ سے مشورہ کرکے عدالت میں پٹیشن فائل کریں گے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے سابق وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری حلقہ بندیوں پر تجویز دی ہے کہ کسی بھی حلقے کو متاثر نہ کیا جائے۔انتخابی فہرستوں میں مرد خواتین ووٹرز کے مابین 1کروڑ سے زائد کا فرق ابھی تک برقرار ہے جس کو اگلے انتخابات سے قبل کم کرنے کی ضرورت ہے ۔وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی حلقہ بندیوں پر مسلم لیگ ن کو بھی اعتراض ہے اور معاملے کو پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں پیش کریں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حاجی غلام احمد بلور نے کہاکہ اے این پی نے بھی انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنے تحفظات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیے ہیں تاہم 5مارچ کو حلقہ بندیوں کی اشاعت ہونے کے بعد صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینٹر عثمان کاکڑ نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے انتخابی حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی ہے انہوںنے کہاکہ بلوچستان میں خواتین ووٹرز کے اندراج کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں بلوچستان ،فاٹا اور خیبر پختونخوا میں لاکھوں افراد شناختی کارڈز سے محروم ہیں انہوں نے کہاکہ عوام میں انتخابات سمیت انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق شعور اجاگر کرنے کیلئے پی ٹی وی کو انتخابات سے 6ماہ قبل الیکشن کمیشن کی تحویل میں دینا چاہیے بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے تاہم قومی اسمبلی میں ہم آٹے میں نمک کے برابر ہیں اس پر توجہ دی جائے اور بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستوںمیں اضافہ کیا جائے انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن کو فرمائشی حلقہ بندیاں بنانے کی بجائے قوانین کے مطابق حلقہ بندیاں بنانی چاہیے اس وقت 30فیصد سے زائد حلقے فرمائشی طور پر بنائے جا رہے ہیںانہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں سے متعلق بریفنگ سے ہمارے تحفظات ختم نہیں ہوئے۔