اینٹی گرینڈ کمانڈ ، کنٹرول اینڈ کمیونیکیشن سینٹر
احسان شوکت
azee_ahsan@hotmail.com
لندن ،ٹوکیو اور استنبول کی طرز پر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جرائم پر قابو پانے کے لئے پنجاب سیف سٹیزاتھارٹی (پی ایس سی اے) کے تحت لاہور شہر میں 8ہزار کیمرے لگاکر پولیس قربان لائنز میںبنائے گئے اینٹی گریٹڈ کمانڈ،کنٹرول اینڈ کمیونیکشن سنٹر(پی پی آئی سی 3)سے لاہور میں کرائم کو مانیٹر کیا جارہا ہے ۔یہ منصوبہ پنجاب کے نو بڑے شہروں لاہور، قصور،شیخوپورہ ،ننکانہ صاحب،گوجرانوالہ، فیصل آ باد، سرگودھا ، راولپنڈی اور ملتان میں شروع کیا گیا ہے ۔جس کے تحت ان نو شہروں میں پنجاب پولیس اینٹی گریٹڈ کمانڈ،کنٹرول اینڈ کمیونیکشن سنٹرز(پی پی آئی سی 3)قائم کئے جارہے ہیں ۔اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے لاہور میںساڑھے 13ارب روپے کے منصوبے سے جدید ترین ٹیکنالوجی اور سہولیات سے لیس اینٹی گریٹڈ کمانڈ،کنٹرول اینڈ کمیونیکشن سنٹر میںایشیا کی سب سے بڑی سکرین سے شہر کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ کی جا رہی ہے ۔لاہور میں لگنے والا یہ سسٹم 24گھنٹے کام کررہا ہے ۔ پولیس اس جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سیکیورٹی سسٹم اور سٹریٹ کرائم کوکنٹرول کر رہی ہے ۔ اس منصوبہ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ا نٹیلی جنٹ ٹریفک مینجمنٹ سسٹم، انسداد دہشتگردی نگرانی نیٹ ورک، انٹیگریٹڈ ایمرجنسی رسپانس اور اسٹیٹ آف دی آرٹ جدید کمیونیکشن سسٹم کاوجود عمل میں لایا گیا ہے۔ تکنیکی نقطہ نظر سے یہ منصوبہ عالمی معیار کے مطابق ،چہرہ شناسی سافٹ وئیر، خود کار نمبرپلیٹ شناخت سافٹ ویئر، موبائل کمانڈ سینٹرعوامی اجتماعات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جوکہ عوامی اجتمات کی مانیٹرنگ کے لئے کافی سود مند ہے۔کسی بھی جرم کی صورت میں کنٹرول سنٹرز سے پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الارم بیل کے ذریعے فوری آگاہی ہونے پر متعلقہ ادارے الرٹ ہوجاتے ہیںجبکہ اس پراجیکٹ کے ذریعے ہر قسم کی ایمرجنسی رسپانس، دہشت گردی کی کاروائیوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ پولیس، ریسکیو1122، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کے علاوہ 15کالز نہ صرف براہِ راست موصول ہو رہی ہیں بلکہ ایمرجنسیز سے نپٹنے کرنے کے لئے کمیونیکیشن آفیسرز فوری طور پر متعلقہ علاقے کے قریب ترین یونٹ کو آگاہ اور احکامات جاری کررہے ہیں۔ اسی منصوبے کے تحت شہر کی سڑکوں پر لگے کیمروں کے زریعے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پرتصویر اتار کر چالان جرمانے بھی وصول کئے جائیں گے، جوکہ خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی کی تصویر بطور ثبوت مہیا کریںگے جبکہ چالان جمع کرانے کا آن لائن طریقہ بھی جلد متعارف کرایا جائے گا۔ ان تصوارت کو حقیقی شکل دینے کے لیے ٹریفک نمبر پلیٹ کا نمونہ تبدیل کرکے اسے ایسے طریقہ پر ہم آہنگ کیا جارہا ہے کہ کیمرہ ان پلیٹس کو پڑھ سکے اس پراجیکٹ کے ذریعے نہ صرف ٹریفک مینجمنٹ میں بھی بہتری آئے گی بلکہ عوام کو سڑکوں پر ٹریفک کی صورت حال کے بارے میں بھی انفارمیشن مل سکے گی اور وہ اسی کے مطابق اپنے سفر کے لئے بروقت صحیح راستہ اختیار کر سکیں گے۔اس منصوبے کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال کنٹرول کرنے کے علاوہ کیمروںسے پولیس اہلکاروں کی مانیٹرنگ ،بطور ثبوت الیکٹرانک شہادت میسر آنااورپولیس کے آپس میںمحفوظ رابطے بھی ممکن ہوسکا ہے ۔ اگر انتظامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ پولیس کی کسی بھی سطح کا پہلا منصوبہ ہے۔ اس ضمن میں نوجوان پولیس کمیونیکشن آفیسرز کو بھرتی کیا گیا ہے جوکہ نہ صرف آئی ٹی گریجویٹس ہیں بلکہ ٹیکنیکل امور کے ساتھ ساتھ انتظامی طور پر بھی اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔یہ منصوبہ جو ابھی تک اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے لیکن اس کے ثمرات ایک بہت بڑے ڈیٹا کی شکل میں سامنے آرہے ہیں ،جو مختلف یونیورسٹیز کی ریسرچ مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔علاوہ ازیں پنجاب گورنمنٹ کے دیگر ادارے جن میں ٹرانسپورٹ،انوائرمنٹ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، ٹریفک انجینئرنگ اور ریلوے پولیس بھی شامل ہے جولاہور کو سمارٹ اور سیف سٹی بنانے کے لئے اپنا بھرپورتعاون فراہم کر رہے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے سیف سٹیز پروجیکٹ کی وجہ سے ہی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لئے قائل کیا ہے۔انٹرنیشنل ماہرین جن کا تعلق برطانیہ ، آسٹریلیا اور جرمنی سے ہے اس پروجیکٹ کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا کہناہے کہ 2018 میں لاہورسمارٹ سٹی سے سیف سٹی میں تبدیل ہو جائے گا ۔لاہور کے سیکورٹی پروفائل میں متوقع اصلاحات سے نہ صرف کاروباری لاگت میں کمی واقع ہو گی بلکہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کے لئے ایک قابل قبول اور محفوظ ماحول بنے گا، جس کا سیکورٹی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔اس کے علاوہ اس پراجیکٹ نے ملک میں محفوظ اور سمارٹ شہروں کے منصوبوں کے لئے ایک مارکیٹ کھول دی ہے۔اس شعبے کی تکنیکی کمپنیاں تحقیقاتی اور ترقیاتی فنڈز میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہیں تاکہ ترقی پذیرممالک کے منصوبوں جیسے کے لاہور سیف سٹی پروجیکٹ کیلئے اقتصادی حل تلاش کرسکیں۔جدید سنٹربڑے اجتماعات کے پرامن انعقاد اور سکیورٹی انتظامات کو فول پروف بنانے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوگا۔ جدید سنٹر کو سیٹلائٹ کے ذریعے دیگر شہروں سے بھی منسلک کیا جائے گا۔اس کے علاوہ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے پبلک سفیٹی ایپ بھی متعارف کرائی ہے ۔جس سے اینڈ رائیڈفون ایپ کے ذریعے گمشدہ یا ملنے والی اشیاء متعلقہ ا فراد کو واپس کی جاسکیں گی۔ایپ فیچر میں کسی بھی فرد،بچے ، سواری، کاغذات یا قابل شناخت سامان کی گمشدگی اور بازیابی رپورٹ کی جاسکتی ہے۔اب تک ایک درجن سے زائد گمشدہ بچوں کو ان کے ورثاء کے حوالے کیا جاچکا ہے ۔پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے لاہور پولیس کے تمام ڈویژنزکے ایس پیز اور تفتیشی افسران کو ایم ڈی ٹی سیٹ اور ہینڈ سیٹ فراہم کرنا شروع کردئیے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ پنجاب سیف سٹیزاتھارٹی منصوبے کو حقیقی معنوں میں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لئے لا ہور کے بعد قصور،شیخوپورہ ،ننکانہ صاحب،گوجرانوالہ، فیصل آ باد، سرگودھا ، راولپنڈی اور ملتان میں اینٹی گریٹڈ کمانڈ،کنٹرول اینڈ کمیونیکشن سنٹرز عمارات کی تعمیر، آلات کی خریداری سمیت ہر مرحلے پر چیک اینڈبیلنس رکھے اور بروقت اینٹی گریٹڈ کمانڈ،کنٹرول اینڈ کمیونیکشن سنٹرز(پی پی آئی سی 3)قائم کرے اورشہروں میں کیمرے بروقت نصب کر کے منصوبے کو عملی جامع پہنائے۔ منصوبے پر اصل روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے،تا کہ ہمارے شہر حقیقی معنوں میں کرائم فری سٹی بن سکیں ۔
شہروں میں جرائم سے نمٹنے کے لئے اقوام متحدہ نے 1996میں افریقی میئرز کی درخواست پر سیف سٹیز پروگرام شروع کیا تھا۔اس وقت 24 ممالک کے 77 شہر اس پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں۔پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کی جانب سے شہریوں میں ٹریفک آگاہی کے لیے لاہور میں 65ایل ای ڈیز لگا دی گئی ہیں۔شہر میں نصب ایل ای ڈیز کو ویری ایبل میسجنگ سروسز ( وی ایم ایس)کانام دیا گیا ہے۔اس کے ذریعے شہریوں کو ٹریفک روانی بارے معلومات دی جائیں گی۔
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر خان نے کہا ہے کہ اس منصوبے کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔کیمروں کی مددسے شہر کی مانیٹرنگ کو یقینی بنانا اورتھانہ کلچرکو تبدیل کرنا۔سیف سٹیز پراجیکٹ پنجاب میں انسداد دہشت گردی، ہنگامی ردعمل ، ٹریفک مینجمنٹ سروسز اور جرائم میں کمی لانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔لاہور میںپی پی آئی سی تھری سنٹرکے لیے 8ہزار سے زائد کیمرے نصب کیے گئے ان میں چاروں اطراف میں گھومنے والے ،گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پڑھنے والے ،رات کے اندھیرے میں اچھی اور صاف تصویر دینے والے ،سنٹر میں بیٹھے زوم ان زوم آوٹ ہونے والے ، اور پی آر یو کی گاڑیوں میں کیمرے نصب کیے گئے ہیں جن کی مدد سے نگرانی ، جرائم اور ٹریفک مینجمنٹ کے کام لئے جارہے ہیں۔