مصنوعی دودھ کی تیاری،انسانی صحت دائو پر !
امیر افضل اعوان
پاکستان دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے بھارت‘ چین اور امریکہ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے تاہم دودھ کی طلب و رسد کا فرق پورا کرنے کیلئے خشک دودھ کی درآمد پر انحصار بڑھ رہا ہے تاہم طلب و رسد کے اس فرق کو بعض مفادپرست عناصر مصنوعی ذرائع سے دودھ بنا کر پورا کررہے ہیں۔ قبل ازیں دودھ میں پانی ملانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس سے اس کی افادیت میں کمی واقع ہوئی اور کثیف و بھارے پانی کی آمیزش سے دودھ میں مضر اثرات پیدا ہونے لگے اور دودھ جلد خراب ہونے لگا بجائے اس کے کہ اس شعبہ سے وابستہ افراد اس امر سے باز آجاتے انہوں نے دودھ میں ملائے جانے والے مضر اثرات کو چھپانے اور گندے پانی کی وجہ سے دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے دماغ لڑانا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں مختلف کیمیلز کا استعمال عمل میں آیا اور یہیں سے مصنوعی دودھ کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوا اور تجارتی ذہن رکھنے والوں نے خطرناک کیمیکلز سے مصنوعی دودھ کی تیاری کا سلسلہ شروع کردیا جو کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
خطرناک کیمیکلز کے استعمال کی ابتداء میں شیر فروش حضرات نے دودھ کو زیادہ دیر تک محفوظ بنائے رکھنے کیلئے کیمیائی مادوں کا استعمال شروع کیا اور اس حوالہ سے جراثیم کش کیمیکل مثلاً ہائیڈروجن پر آکسائیڈ‘ فارملین‘ پنسلین‘ بال صفا پائوڈر اور بوریکس سمیت دیگر کیمیائی مادے ملائے جانے لگے چونکہ ٹھنڈا دودھ جلد خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں اس لئے دودھ کو تادیر ٹھنڈا رکھنے کیلئے اس میں برف‘ یوریا کھاد‘ ایمونیم سلفیٹ اور دیگر کیمیکل بھی ملائے جانے لگے۔ جب دودھ میںکیمیکل ملائے جانے کی روش پیدا ہوئی تو رفتہ رفتہ متعلقہ افراد کو علم ہوا کہ بیکنگ سوڈا یعنی میٹھا سوڈا اور کاسٹک سوڈا بھی دودھ کو دیر تک محفوظ رکھتا ہے تو اس کی ملاوٹ بھی شروع ہوگئی‘ دودھ کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کا مسئلہ حل ہوا تو انہی کیمیکلز کی بدولت مصنوعی دودھ تیار ہونے لگا‘ دودھ کی تیاری کے مصنوعی ذرائع اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ شعبہ سے وابستہ افراد نے جانوروں سے حاصل ہونے والے دودھ میں اضافہ کیلئے بھی نگاہیں دوڑانا شروع کیں تو یہاں جانوروں کو ٹیکے لگانے کی رسم شروع ہوگئی‘ اب جانوروں کو آکسی ٹسین ہارمون کا ٹیکا لگایا جاتا ہے جس کی بدولت دودھ کی پیداوار 50 فیصد تک بڑھ جاتی ہے‘ مویشی پال حضرات اپنے جانوروں کو بووائن سوماٹو ٹروپین کا ٹیکا بھی لگاتے ہیں۔
معاشرہ میں مصنوعی دودھ بنانے کے مختلف طریقے موجود ہیں۔مصنوعی دودھ تیار کرنے والے اس آمیزے یا مصنوعی دودھ میں گاڑھا پن لانے کیلئے سوڈیم کلورائیڈ‘ یوریا‘ کپڑے دھونے کا پائوڈر یعنی سرف‘ ایس این ایف‘ مادے‘ کاروہائیڈریٹ‘ پسے ہوئے سنگھاڑے‘ کیلشیم ہائیڈرو آکسائیڈ‘ سکم پائوڈر اور پینٹ وغیرہ بھی ملاتے ہیں تاکہ دودھ خریدنے والی کمپنیوں کی لیکٹو میٹر ملاوٹی اجزاء تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ مزید اب تو خالص دودھ میں ملاوٹ کرنے والی اشیاء میں چینی‘ نمک‘ بینزوک ایسڈ‘ سیلی سائیلک ایسڈ‘ سوڈیم‘ گلوکوز‘ مالٹوز‘ بلائنگ پائوڈر کاربونیٹس اور بائی کاربونیٹس کے ساتھ ساتھ ایمونیم سلفیٹ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ مصنوعی دودھ میں کھانا پلانے کا آئل ڈالنے سے چکنائی اور بالائی پیدا ہوتی ہے اور اس آئل کو پانی کے ساتھ حل کرنے کیلئے ڈٹرجنٹ یعنی سرف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اس لئے ملایا جاتا ہے کہ مصنوعی دودھ میں تیزابیت پیدا نہ ہو ورنہ وہ دودھ کو کھٹا کردیتی ہے‘ یوریا کھاد دودھ میں ایس این ایف جیسا اثر پیدا کرتی ہے‘ مصنوعی دودھ میں خالص دودھ اس لئے شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس میں دودھ جیسا ذائقہ بھی پیدا ہوسکے‘ مصنوعی دودھ بنانے کے اور بھی کئی طریقے ہیں مگر ان سب میں ہی انسانی صحت کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملاوٹ شدہ یا مصنوعی دودھ میں 20 سے زائد کیمیکل ملائے جاتے ہیں جس میں سے ہر کیمیکل انسانی صحت کیلئے زہر قاتل سے کم نہیں۔
مصنوعی دودھ کی تیاری اور اس کے مضر اثرات کے حوالہ سے حقائق سامنے آنے پر ملک میں انسدادی اقدامات کا آغاز ہوا تو یہ بھی علم میں آیا کہ دودھ کے نام پر ملک میں ٹیٹرا پیک کی فروخت میں پیش پیش بڑی کمپنیاں بھی مصنوعی دودھ تیار کرکے عوام کی جان و مال سے کھیل رہی ہیں۔ اس حوالہ سے جامع حکمت عملی کے تحت کام کیا گیا اور ملک میں موجود ڈیریوں کے ساتھ ساتھ ان بڑی ڈبہ پیک دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیا گیا اس حوالہ سے لیبارٹری رپورٹس کی روشنی میں ہائیکورٹ کے بعد سپریم کورٹ نے بھی ایکشن لیا۔
بلاشبہ پنجاب میں مضر صحت کیمیکلز کے نتیجہ میں پیدا کئے جانے والے دودھ پر سپریم کورٹ کے کچھ عرصہ قبل لئے جانے والے اس ازخود نوٹس کے نتیجہ میں کافی بہتری آئی تھی مگر اس مرض بد کا مستقل علاج ممکن نہ ہوسکا اور مفاد پرست عناصر ایک بار پھر متحرک ہوچکے ہیں۔ اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں ایک مرتبہ پھر مصنوعی دودھ کی تیاری پورے عروج پر ہے۔ سرگودھا ڈویژن میں بھی اس حوالہ سے سنگین صورتحال سامنے آرہی ہے۔ یہاں سرگودھا‘ بھلوال اور بالخصوص کوٹ مومن میں صورتحال بہت ابتر دکھائی دیتی ہے کہ جہاں مفاد پرست عناصر کھل کھیلنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور محکمہ لائیو سٹاک اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ذمہ داران اس حوالہ سے کوئی خاص کردار ادا کرنے سے قاص دکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں مختلف کمپنیوں کے نام پر مصنوعی دودھ کی تیاری عمل میں لاتے ہوئے لاہور اور اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں دودھ کے نام پر موت تقسیم کی جارہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس علاقوں میں مصنوعی دودھ تیار کرنے والوں نے خشک دودھ بھی وسیع پیمانے پر ذخیرہ کررکھا ہے اور کمال حیرت تو یہ کہ ان کمپنیوں نے یہ سٹاک اپنے پاس رکھنے کے بجائے مختلف فیکٹریوں میں سٹورکررکھا ہے جہاں سے بوقت ضرورت یہ سٹاک اٹھا کر مصنوعی دودھ تیار کرکے فروخت کیلئے بھجوایا جاتا ہے۔