فلسطینیوں اور مسلم اُمہ کے کاز کے لئے پاکستان کی کوششیں
مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی رکوانے کے سلسلے میں پاکستان نے او آئی سی (اسلامی ملکوں کی تنظیم) اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ وزارت خارجہ کے سینئر عہدیداروں کے مطابق امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم (بیت المقدس) منتقل ہونے کے بعد فلسطین کا مسئلہ پیچیدہ ہو جائے گا۔
اسرائیل اپنی ناجائز پیدائش کے دن سے ہی اپنا دارالحکومت بیت المقدس (یروشلم) منتقل کرنے کا آرزومند ہے۔ اس وقت ان تمام ملکوں کے‘ جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے‘ سفارت خانے تل ابیب میںہیں۔ عالمی سطح پر بھی اسے ہی اسرائیل کا دارالحکومت مانا جاتا ہے۔ اسرائیل نے اس سے پہلے اپنا صدر مقام بیت المقدس منتقل کرنے کی کئی کوششیں کی ہیں لیکن اس کی دنیا بھر میں مخالفت کی گئی۔ اس سلسلے میں امریکہ بھی مخالفت کرتا تھا۔ اسرائیل کی خوش قسمتی کہ امریکہ میں بارک اوباما کے بعد صدر ٹرمپ کی حکومت آ گئی جس نے اسرائیل نوازی کے امریکہ کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی نے صہیونی ریاست کے فلسطینیوں اور عربوں کے بارے میں رویوں کو مزید سخت کر دیا ہے۔ اوپر سے صدر ٹرمپ نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے‘ اگر اس پر عمل کیا گیا تو فلسطین کا مسئلہ حل سے بہت دور ہو جائے گا۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی امیدیں دم توڑ جائیں گی اور عرب گزشتہ سو سال سے اپنی سرزمین کو غاصب صہیونیوں سے آزاد کرانے کے لئے جو قربانیاں دے رہے ہیں‘ وہ رائیگاں چلی جائیں گی۔
کئی عشرے پہلے بعض مسلم ممالک‘ مصر‘ ترکی‘ اردن وغیرہ نے اس امید پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے تھے کہ اس طرح فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے صہیونی ریاست پر دباؤ بڑھانا ممکن اور آسان ہو جائے گا۔مگر ان کی ایک امید بھی پوری نہیں ہوئی۔ بھارت نے‘ جو عربوں کا بڑا خیرخواہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور عربوں نے اس کے سرمایہ کاروں اور باشندوں کے لئے اپنے اپنے ملکوں کے دروازے کھول رکھے ہیں، فلسطین‘ اسرائیل تنازع میں منافقت کی حد کر دی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نئی دہلی کا دورہ کرتا ہے، جہاں اسے کسی بھی عرب سربراہ سے زیادہ پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ دورے کے دوران ہر تصویر میں مودی اور نیتن یاہو بانہوں میں بانہیں ڈالے نظر آتے ہیں۔ ہنود یہود کے سربراہوں نے دنیا کے ہر مسئلے پر بات کی لیکن ان کے منہ سے فلسطینیوں کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں نکلا لیکن ہمارے عرب فلسطینی بھائیوں کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ نیتن یاہو کو بھارت کا دورہ کئے بہ مشکل دو ماہ گزرے ہوں گے کہ فلسطین کے سربراہ محمود عباس کی دعوت پر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی‘ فلسطین پہنچ گئے جہاں ان کا فلسطینیوں اور عربوں کے محسن کے طور پر استقبال کیا گیا اور گمان کیا گیا کہ مودی اسرائیل پر دباؤ ڈال کر فلسطین کا مسئلہ حل کرا دیں گے مگر اسرائیل کی پالیسی میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ جب تک فلسطینی بھائی اپنی توقعات ایسے منافقوں سے وابستہ رکھیں گے ان کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پاکستان سے عرب اور فلسطینیوں کے تعلقات بس واجبی سے ہیں، جو آج بھی کسی کی ناراضگی یا نقصان کی پروا کئے بغیر مسلم امہ کے کاز کا علم بلند کئے ہوئے ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف اسی طرح ہی ممکن ہے کہ مسلمان‘ امریکہ یا بھارت کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور امریکی سفارت خانے کی مجوزہ منتقلی سمیت درپیش مسائل کے لئے یکساں پالیسی اختیار کریں۔