مدینہ منورہ سے مکہ کے لئے روانگی کا وقت آیا تو ہمارے گائیڈ اور ڈرائیور نے یہ سفر ہائی وے کی بجائے مکہ شریف براستہ مقامِ بدر کرنے کا مشورہ دیا۔ میری بیگم بدرالنساء وڑائچ کا بھی شوق تھا کہ مقامِ بدر، میدانِ بدر کو ایک دفعہ ضرور دیکھا جائے۔ مقامِ بدر پر پہنچ کر وہ میدان دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، جس میں اللہ کے رسولؐ اور آپ کے تین سو تیرہ ساتھیوں نے کافروں کے ہزاروں کے لشکر کو شکست دی تھی۔ اس جنگ میں اللہ نے فرشتوں کو اپنے محبوبؐکی مدد کے لیے بھیجا تھا اور اسی جنگ میں رسول کریمؐ کے چچا ابوجہل لشکرِ کاکفارکا سردار تھا اس کا بھی خاتمہ ہوا، اور وہ کنواں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کو مشرکین کی لاشوں سے بھر کر بند کر دیا گیا تھا۔ مدینہ سے مکہ کا یہ راستہ 339کلومیٹر ہے۔ تقریباً 4گھنٹے کی مسافت کے بعد مکہ پہنچے۔ اللہ کے دربار میں حاضر ہونے سے پہلے میں تھرتھر کانپ رہا تھا کہ دربارِ رسولؐ اللہ سے تو مجھے شفقت ملی تھی مگر یہاں کا جلال نہ جانے کیا ہوگا؟ مکہ کا شہر جو اس وقت میلوں پر محیط ہے اس کو چٹیل پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے، میں تحقیق کے بعد یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی کنسٹرکشن اور کرینیں مکہ میں ہمہ وقت کام کر رہی ہیں اتنی دنیا کے کسی ملک اور شہر میں بیک وقت ممکن نہیں۔ مکہ آمد کے ساتھ ہی نوائے وقت کے ایک پرانے قاری چوہدری محمد جاوید گوندل صاحب نے ہم سے وعدہ لے لیا تھا کہ وہ مکہ اور گردونواح کی زیارتیں ہمیں کروائیں گے۔ ہم نے پیارے نبی کریمؐ اور آپ کی ذات سے وابستہ تقریباً ہر وہ زیارت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ جاوید گوندل صاحب ہمیں خصوصی طور پر مکہ کے نواح میں نہر زبیدہ دکھانے لے گئے۔
قارئین! خلیفہ ہارون الرشید کی محبوب ملکہ زبیدہ نے جب ایک دفعہ حج کے دوران یہ دیکھا کہ عرفات کے مقام پر پانی کا حصول انتہائی مشکل ہے تو اس نے مکہ سے 35کلومیٹر دور وادیٔ حنین جہاں پر پانی کا وافر ذخیرہ موجود تھا، ایک نہر نکالنے کا منصوبہ تشکیل دیا اور پھر وادیٔ حنین سے عرفات کے میدان تک حاجیوں کے لیے تین میٹر گہری اور سوامیٹر چوڑی مکمل طور پر ڈھانپی ہوئی نہر تعمیر کی گئی، جس سے بعد کے کئی سوسال تک حاجیوں اور زائرین کو پینے اور ضروریات کا پانی ملتا رہا۔ اس نہر کی ہیئت اور شکل دیوارِ چین سے ملتی جلتی ہے اور آج بھی یہ کئی جگہ پر موجود ہے اور عقل دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک عورت کے عزم نے یہ ناقابلِ یقین منصوبہ تکمیل کو پہنچایا تھا (میں انشاء اللہ اپنے کسی اگلے کالم میں دلیر اور پُرعزم اسلامی خواتین کا ذکر کروں گا)
مکہ شریف میں سال کے تین سو پینسٹھ دن لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن حج کے موقع پر مقامی اور غیر مقامی حاجیوں کی تعداد چالیس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ حرمِ کعبہ یقینا اس کرئہ زمین پر وہ جگہ ہے جو ہر وقت انسانوں اور فرشتوں سے بھری رہتی ہے اور ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق پوری دنیا میں ٹورزم انڈسٹری کا 75 فیصد صرف مکہ اور مدینہ میں پایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ سوئٹزرلینڈ، انگلینڈ، اٹلی، فرانس، سپین اور ایشیا کے تمام ممالک میں آنے والے ٹورسٹ مل کر بھی مدینہ اور خانہ کعبہ آنے والے زائرین کے عشرِ عشیر بھی نہیں مگر مدینہ اور مکہ سمیت حجازِ مقدس کی سرزمین پر پچھلے ایک سو سال سے خاندانِ سعود کا کنٹرول ہے اور اس عرصہ کے دوران بے شمار اسلامی نوادرات اور تاریخی مقامات کو ختم کر دیا گیا ہے اور جو زیارتیں اس وقت مکہ اور اس کے نواح میں موجود ہیں، ادھر جانے والے زائرین کی حوصلہ شکنی کے اسباب پیدا کیے جاتے ہیں خود میں نے حرم شریف میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فرض نماز کے بعد نوافل اور سنتیں اداکرنے والے زائرین کو زبردستی کھینچ کر جگہ خالی کروائی جاتی ہے۔ میں ایک عام سامسلمان ہوں شاید اسلامائزیشن پر مجھے اتھارٹی بھی نہیں مگر انسانی حقوق کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میرا یہ تجزیہ ہے کہ موجودہ سعودی حکمران اپنے عقائد کو زبردستی مسلمانوں پر مسلط کرنے کے خواہاں ہیں۔ دنیا بھر کے دو سو گیارہ ملکوں سے آنے والے سالانہ کروڑوں مسلمان زائرین کی نہ صرف تضحیک کی جاتی ہے بلکہ ان کی بے بسی پر دیکھنے والے کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں جبکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا خود یہ فرمان ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل نہیں اگر برتری ہے تو اپنے اپنے اعمال کے حوالے سے
قارئین! کھربوں ڈالرز سالانہ سعودی عرب میںمذہبی ٹورزم انڈسٹری سے آتے ہیں اور ایک اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کو زائرین سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ اس کے مجموعی وسائل کا اٹھانوے فیصد بنتا ہے جبکہ سعودی عرب کو تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی دو سے پانچ فیصد ہے اور اگر سینکڑوں کھرب ڈالرز بھی سعودی معیشت کو سہارا دینے میں ناکام ہیں تو پھر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور چند سو شاہی افراد کا وسائل پرقبضہ اور اس دھن دولت سے نیویارک، لندن، زیورخ اور پیرس کی پوری پوری ہائی سٹریٹس اور دنیا کی بلندوبالا عمارتیں خریدنے اور بنانے کا شغل جاری ہے میں نے اپنے اس مطالعاتی دورے اور عمرے کی ادائیگی کے دوران یہ بات خاص طور پر نوٹس کی کہ سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی بے چینی کی اصل وجہ صرف دو ہیں پہلی یہ کہ سعودی عرب میں مڈل کلاس طبقہ تقریباً معدوم ہے یا تو شاہی قسم کے طبقات موجود ہیں یا پھر غریب لوئرمڈل کلاس قسم کے بدوہیں اور عام عرب اور اس طبقاتی فرق میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سعودی معیشت کے دگرگوں ہونے کی دوسری وجہ ہمسایہ اسلامی ممالک پر غلبہ کی خواہش ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے امریکہ اور یورپین منڈیوں سے ہر سال خریدا جانے والا سینکڑوں ارب ڈالرز کا وہ اسلحہ ہے جس کی صرف ادائیگی کی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ اسلحہ کبھی سعودی سرزمین پر پہنچایا بھی نہیں گیا اگر آل سعود واقعی ہی حرمین شریف کا معتبر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اپنی تین کروڑ آبادی کی بجائے پوری دنیا کے ایک سو ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے جذبات، حالات، احساسات کا ادراک کرنا ہوگا۔ میرا ایمان ہے کہ دنیا بھر کا کوئی بھی مسلمان حرمتِ کعبہ اور عزتِ رسولؐ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو تیار ہے۔ میری اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ یا تو مسلمان حکمرانوں کو اسلامی شعور دے یا پھر انہیں ان کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دے۔ یقینا اس میں ہی اے مولانا تیرے حرم کا بھرم قائم رہ سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38