بیربل یا بحرام…؟
کہتے ہیں کہ ایک روزاکبر بادشاہ اپنے دربا ر میں بینگن کی برائی بیان کر رہا تھا جو کچھ اس قسم کی تھی کہ بینگن بھی کوئی ترکاری ہے؟سیاہ،بے ڈول،مضر صحت وغیرہ وغیرہ،بیربل ہاں میں ہاں ملائے جا رہا تھا اور کہے جا رہا تھا کہ ’’حضور آپ صحیح فرما رہے ہیں ‘‘،دوسرے روزجب اکبر بادشاہ اپنے دربار میں آیا اور درباریوں کے سامنے بینگن کی تعریف کی توسب تعریف کرنے لگے اور جی حضور،جی حضور کہنے والوں میں بیربل سب سے آگے تھا،اکبر متعجب ہو کر سوچنے لگا کہ جب میں بینگن کی برائی کر رہا تھا تو بیربل ہاں میں ہاں ملا رہا تھا اور جب بینگن کی تعریف کر رہا ہوں تو بھی جی حضور،جی حضور کررہا ہے،اس نے بیربل سے اس کا سبب جاننا چاہا تو بیربل نے بڑے ادب سے کہا،’’حضور آپ کا نوکر ہوں بینگنوں کا نہیں،اس حکایت ہی میں بد حالی اورخوش حالی کا راز چھپا ہوا ہے۔’’ جی حضوری‘‘ہی سب سے بڑا مسلہ ہے، اکبر کے نو رتنوں نے تو اسے عروج پر پہنچا دیا تھا کیونکہ وہ خود بھی بیدار مغز تھا،لیکن جس قسم کے ’’رتن‘‘ اس ملک کے حصے میں آتے رہے ہیں ،وہ نہ جانے کس مٹی سے بنے ہوئے تھے اور ہیں،عام طور پر کسی کے زوال پر کہا جاتا ہے کہ اس کے مشیر اچھے نہیں تھے،جو پوری طرح درست بات نہیں ہے ،خرابی ہمیشہ اوپر سے جنم لیتی ہے اور اس کا اثر نیچے کی جانب آتا ہے جیسا حکمران ہو گا ویسے ہی مشیر اور وزیر مل جائیں گے،جس طرح کی افتاد طبع ہو گی ،اسی طرح کے مشورے ملنا شروع ہو جائیں گے،سب رتن پانی کے بہائو کے ساتھ بہنا چاہتے ہیں،پانی کے مخالف تیرنے کی ہمت کسی ،کسی میں ہوتی ہے ،ایسے رتن جلد گھر بٹھا دئے جاتے ہیں ،یہ کسی ایک پارٹی ،تنظیم،ادارے،کمپنی،گروپ، تک محدود نہیں ہے ،یہ سماجی رویہ ہر جگہ موجود ہے ،ہر کوئی اپنے مطلب کی بات ہی سننا چاہتا ہے ۔اگر ’’حضور‘‘ خیر سے مسند پر بھی ہیں تو مشیر اور وزیر وہی بات کریں گے جو حضور کے کان سننا چاہتے ہیں،بڑے گریڈ والا چھوٹے والے سے بس اپنی سوچ کی تائید چاہتا ہے،اس طرح خرابی بڑھتی چلی جاتی ہے اور ،حضور‘‘ کو اس روز آٹے دال کا بھاو معلوم ہو تا ہے جب کہانی ختم ہوتی ہے ، جب لائن کٹ جاتی،جب بھائی بنے ہوئے میرے ہم وطنوں کہتے ہیں ،جب نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز چنگاڑ کر بتاتی ہیں کہ اب صادق اور امین نہیں رہے،جب اپنی جیتی ہوئی سیٹ 40 ہزار کے فرق سے ہاری جاتی ہے،جب کسی کے بار بار ضمنی الیکشنز میں 3 ہزار سے اوپر ووٹ نہیں بڑھتے،تو یہیںسے خود احتسابی کا عمل شروع کر دیناچاہئے،یہ تو اشارے ہیں ا ور سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ کن کا ذکر ہو رہا ہے،یہاں سے حکمت عملی بدلنے اور نئی سوچ اپنانے کی جانب بڑھنا ہوتا ہے ،جو طرز کہن پر اصرار کرتے رہیں گے ان کے لئے کچھ نہیں بدلنے والا ہے ،آگے اس سے بھی ذیادہ مشکلات آئیں گی،لاہور میں کرو ٹ کے آثار اسی کی تمہید ہیں،اس لئے اردگرد ذرا دیکھ لیں’’بینگن‘‘ کی خوبیوں اور خامیوں پر اپنے اندر بحث کرا لیں،اپنی رائے کی بجائے سب کی سن لیں ،کھل کر بلوا لیں اور ان کی بھی سن لیں جو دور ہو گئے، 40ہزار سے ہارنے والوں کا عام انتخابات میں پانچ سال سے جاری بیانیہ نہیں چلنے والا ہے،ان کا سب بڑ ا ایشو افتاد طبع ہے،ن اگرچہ کسی حد تک اس کا فائدہ ہوا اور انہوں نے صف اول میں جگہ بنا لی مگر اس کو برقرار رکھنا چیلنج ہے،ایسا لگتا ہے کہ گذرتے دن ترقی معکوس کی جانب لے جا رہے ہیں،یہ افتاد طبع ہی ہے جس کے باعث ایسا ہو رہا ہے،مزاج شاہ میں اگر تبدیلی نہ آئی تو منزل جو پہلے ہی آسان نہ تھی اور دور بلکہ ناقابل رسائی ہو جائے گی،سب سے ذیادہ خود احتسابی ان کو کرنا چاہئے جو 3 ہزار سے اوپر نہیں جا پا رہے ہیں،ان کو سودا کیوں بک نہیں پا رہا ہے ،اس بارے میں یہ کب سوچیں گے؟ ان کو سمجھ جانا چاہئے کہ’اب یا کبھی نہیں ‘‘ والا مرحلہ آچکا ہے،دھاندلی ہو جاتی ہو گی،پیسے لگ جاتے ہوںگے،پٹواری اور تھانے دار مخالف ہوں گے،لیکن اس سے ہٹ کر اور بھی بہت سی وجوہ ہوں گی ،ان کے بارے میں کون غور کرئے گا ،اوپر سے فرشتے تو آنے سے رہے،پٹواری اور تھانے دار کے ہوتے ہوئے بھی کئی الیکشن جیتے گئے تو صاف ہے کہ تنزل کا باعث کچھ اور بھی ہے،چند برس پہلے کی بات ہے مرکز میں ان کے وزیر آعظم سے کئی بار سوال ہوا کہ مد مقابل عوام میں نکلے ہوئے ہیں،غلط یا ٹھیک، انہوں نے اپنے اقدامات سے عوام کی توجہ حاصل کر رکھی ہے،تو اس کے جواب میں ہمیشہ کہتے ،ہم ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے ،بات کے کھرے نکلے ،کچھ نہ کیا کیونکہ وہ کچھ نہ کرنے پر ہی یقین رکھتے تھے،اب ان کو اپنے خلاف مقدمات سے فرصت نہیں ملتی ہے،یہ حکومت میں تھے تو مفاہمت چلتی رہی اور اپوزیشن میں آئے تو مفاہمت مکمل مفاہمت بدل گئی،اور کاروبار زندگی چلتا رہا ، حیرت ہوتی ہے کہ ملک کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈر کا منصب پاس ہونے کے باوجود میڈیا میں اپوزیشن لیڈرکاتاثر ایک تیسری شخصیت کے حصے میں آیا،اب انتخابات سر پر ہیں اور لیٹ نکالنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو پارہی ہے،اس سے بڑی کمزوری کیا ہوگی کہ وقت نے موقع دیا تھا مگر اس کا فائدہ کسی اور کے حصے میں چلا گیا،تو اب آگے کا راستہ ہی سوچا جا سکتا ہے ،’’سو پے بھاری‘‘ کے نعرے سے دل پشوری ہو جاتی ہے مگر اس سے حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا ہے،اب ’’جناب‘‘ کو عوام کے ساتھ تعلق کے لئے روز نکلنا چاہئیے،کارکنوں کی کھلی کچہریاں لگائیں،ان سے پوچھیں کہ وہ کیوں دل چھوڑ بیٹھے ہیں؟نوجوان قیادت کو آگے آنے دیں ،اس کو عوام میں جانے دیں،ملنے دیں،بات کرنے دیں،سننے دیں، سنانے دیں،ملک کی ساٹھ فی صد سے ذائد آبادی نوجوان ہے ،ان کو جوان قیادت ہی متاثر کر سکتی ہے ،تجربہ اور جوش کو اگر ہوش کی آنچ لگی تو معجزہ ہو سکتا ہے،مگر’’ خبر دار ہوشیار‘‘ ،اس جوان قیادت کے رتنوںمیں کوئی بیربل چل سکتا ہے،بحرام۔۔نہیں۔‘‘