مستقبل کی فکر کریں گے
بد قسمتی سے انگریز توچلا گیا مگر غلامانہ سوچ چھوڑ گیا اور اس سوچ نے خدمت کے جذبے کو حکومت سے حاکمیت میں بدل ڈالا اور ہم نے سیاست کو جو کہ مقدس پیشہ تھا گالی بنا ڈالا ۔۔ویسے ایساپاکستان میں ہی ہے جبکہ دوسرے معاشروں میں سب کے لیے یکساں قانون رائج ہے اور اشرافیہ کا بھی کڑا احتساب اور حساب کیاجاتا ہے مگر ہمارے ہاں اشرافیہ کا جرم ثابت ہو نے کے باوجود انھیں سونے کے تاج پہنائے جاتے ہیں اور سر پر بٹھایا جاتا ہے بایں وجہ حوصلے بلند ہیں کہ شرمندگی اورافسوس کاکہیں نام و نشان نہیں ہے ۔ میاں صاحب نے شیخوپورہ جلسہ میں نوٹ لہراکر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی اور عدلیہ کے فیصلے کا کھلے عام مذاق اڑایا دوسری طرف زرداری صاحب نے رائو انوار کو بہادر بچہ قرار دیتے ہوئے اس گمان کو سچ ثابت کیا کہ وہ واقعی ایک روبو ٹ ہے اورکسی بڑے ہاتھ میں کنٹرول ہے ۔چوہدری نثار نے ایک بار پھر ن لیگی رازوں کو فاش کرنے کا عندیہ دیا جوکہ وہ ہمیشہ سے دیتے آرہے ہیں مگر کسی مصلحت کے ہاتھوں ہمیشہ خاموش ہو جاتے ہیں بس عائشہ گلالئی کوکوئی مصلحت نہیں روکتی کہ عمران خان کے بعد اس کا ٹارگٹ نواز شریف ہے کپتان تو خاموش رہا مگر لیگی بھائیوں نے اعلان جنگ کر دیا ہے ویسے موسم تو جلسے جلوسوں کا ہے اور سبھی انتخابات کی تیاریوں اور عوامی ہمدردیاں سمیٹنے اور اپنی کار گزاریاں چھپانے میں مصروف ہیں مگر خان صاحب نے اپنی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ’’پیرنی‘‘ سے تیسری شادی رچالی ہے اور ہنی مون منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ حالانکہ یہ وقت سیاسی میدان میں اترنے کا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جو میدان محبت میں اتر جائے پھر وہ کہیں کا نہیں رہتا ۔۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ تحریک انصاف کی سیاست کیا رخ اختیار کرتی ہے کیونکہ وقت پر کئے گئے فیصلے ہی کامیابی کی دلیل ہوتے ہیں ۔خان صاحب سے ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلے ہو جاتے ہیںاور اپنی غلطیوں کو دہرانے میں فخر محسوس کرتے ہیں تاہم اب دیگر سیاسی جماعتوں کی دیدہ دلیری اور توقع مزید بڑھ گئی ہے ۔ عوام تمام سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں میں جوش و خروش سے شریک ہو رہے ہیں لیکن ووٹ پھر ن لیگ کے ڈبے سے نکلنے لگے ہیںجبکہ اصل حالات کا اندازہ تو نگران حکومت میں ہوگا۔دانشوران اور مبصرین سوال کرتے ہیں کہ اگر پاکستان کے زوال کی وجہ سیاسی جماعتوں کی مفادات پرستیاں اور من مانیاں ہیں تو عوام بیدار کیوں نہیں ہوتے ؟ عوام بیدار ہیں مگر انھیں سیکنڈ آپشن نظر نہیں آتا مگر ایسا بھی نہیں کہ سبھی تماشا گروں کے سامنے تالیاں پیٹتے ہیں ۔لودھراں جلسے میں ایک غریب مزدور نے میاں صاحب کو تقریر ہی نہیںکرنے دی کہ چیختا رہا روتا رہا اور سب پر واضح کر دیا کہ :کتنا آسان ہے مفلس پہ کہانی لکھنا ۔۔کتنا دشوار ہے افلاس میں زندہ رہنا !وہ کہتا رہا: ’’میاں صاحب !میں نے اپنی بکری اور گھریلو سامان بیچ کر یہ وہیل چئیر خریدی ہے ،میرے بچے مجبور ہیں ، لاچار ہیں ،وہ کیسے اسکول جا سکتے ہیں ،ہم کیسے زندہ رہ سکتے ہیں‘‘ مگر اسے خاموش کروا دیا گیا ۔اور وہ یہ سب تب کہہ رہا تھا جب میاں صاحب خادم اعلیٰ کو پنجاب میں صحت کی اعلیٰ سہولیات فراہم کرنے پر شاباش دے رہے تھے اور با بانگ دہل کہہ رہے تھے کہ مجھے جھوٹ کی عادت نہیں اور میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اگر آپ آئندہ ن لیگ کو منتخب کریں گے تو سب کو گھر کی دہلیز پر انصاف ملے گا جبکہ اس وقت بھی ن لیگ کی ہی حکومت ہے اور بیوہ عورت اپنے جوان بیٹے کا قتل کیس یہ کہہ کر واپس لے لیتی ہے کہ اس کی جوان بیٹیاں ہیں اورکہیں عزت گنوا کرانصاف نہ ملنے پر معصوم بچی خود کو تھانے کے آگے آگ لگا لیتی ہے ۔۔غریب ماں ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر دم توڑ دیتی ہے۔۔چلیںدور نہیں جاتے چار دن پہلے کی بات ہے کہ گوجرانوالہ میں گھریلو حالات سے تنگ آکر ایک جواں سال آدمی نے خود سوزی کر لی اور اس کی موت سے دل برداشتہ ہو کر اسی کے دو بھائیوں نے موقع پر دم توڑ دیا ۔۔۔گھریلو حالات سے تنگ آکر موت کو گلے لگانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔۔ انصاف فروشی اور بھوک و ننگ سے دلبرداشتہ خود سوزی کے اقدام اٹھانے والوں کے واقعات سے ن لیگ کا باب حکومت بھرا پڑاہے مگر زنجیر عدل میں ہلکی سی بھی جنبش نہیں ہوتی ۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالیٰ کسی رعایا کا حکمران بنا دے اور وہ اس حالت میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ دہی کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔پھر پوچھتے ہیں کہ بتائو ’ کیوں نکالا ‘‘ جو پورے ملک میں تن تنہا دھاڑتا ہو اور سارا کچھ اس کے زیر تسلط ہو پھر بھی وہ نکل جائے تو اسے مان لینا چاہیے کہ :ان بطش لربک لشدید (بے شک ترے رب کی گرفت سخت ہے)۔کہتے ہیں کہ کسی دانشور سے پوچھا گیا کہ زہر کسے کہتے ہیں ؟ اس نے کہا : ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو ’’زہر‘‘ بن جاتی ہے خواہ وہ قوت یا اقتدار ، انانیت یا کاہلی ،عزم و ہمت ،نفرت یا محبت یا کچھ بھی ہو اور پھراس زہر کا اثر صرف حدود سے تجاوز کرنے والے تک نہیں رہتا بلکہ اس کی لپیٹ میں سارا معاشرہ آجاتا ہے ۔سابق ایس ایس پی ملیر،رائو انوار کو ہی دیکھ لیں ۔۔وہ پولیس مقابلوں کے ذریعے نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ بجھا چکا ہے مگر زرداری صاحب نے اسے بہادر بچہ قرار دے دیا۔ اس بیان پر تحریک انصاف نے آصف زرداری کے خلاف سندھ اسمبلی میں مذمتی قرار داد جمع کروا دی ہے ۔جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آصف زرداری قوم سے معافی مانگیں ۔۔تحریک انصاف بھی بچوں کی سی باتیں کرتی ہے حالانکہ ان کی صفوں میں وہ لوگ شامل ہیں جواچھی طرح جانتے ہیں سچ کی تاب نہیں اور سچ کہنے کا حوصلہ بھی کسی میں نہیں پھر گلہ کس سے کریں ہم َ۔۔؟پاکستان میں ہر سال خواجہ سرائوں کی کانفرنس ہوتی ہے گذشتہ برس اس کانفرنس میں ایک وجیہہ نوجوان سر جھکائے بیٹھا تھا جسے خواجہ سرائوں نے آڑے ہاتھوں لیا کیونکہ وہ اجنبی تھا اور بھر پور مردانہ وجاہت کا مالک تھا ،معزز اراکین بھی بھانپ گئے اورجب اسے بہت زیادہ تنگ کیا گیا تو وہ چیخ اٹھا کہ ’’میں دل کا خواجہ سرا ہو ں ‘‘ یہ الفاظ سن کر کانفرنس کے تمام شرکاء پر سکتہ طاری ہو گیا ،وہ نوجوان پھر گویا ہوا کہ : ’’میرے بھائیو! میں اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور تعلیم یافتہ ہوں مگر مجھ میں حوصلے اور ہمت کی کمی ہے کہ میں برائی کو برا ئی اور اچھائی کو اچھائی نہیں کہہ سکتا تھا تو میں نے سوچا کہ مجھے مردانگی کے دعوووں کی بجائے تم لوگوں میں شامل ہو جانا چاہیئے ۔‘‘ویسے بعض خواتین بھی خود کو مرد سمجھتی ہیں اور جب عورت خود کو مرد سمجھ لیتی ہے تو رسوائی ہوتی ہے جیسا کہ عائشہ گلا لئی کے ساتھ ہوا اب جبکہ وہ پشیمان ہے اورچیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اسے استعمال کیا گیا تھا مگر اب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے قصہ مختصر عائشہ گلا لئی ن لیگ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گئی اور عورت کی عصمت اور غرور کو دائو پر لگا دیاکہ اس کا والد اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا مگر کھلاڑی خاموش رہا اور ن لیگ کی چال ناکام ہو گئی مگر اب گلا لئی نے پاک افواج کے خلاف پراپیگینڈا کا جو بھانڈا پھوڑا ہے اس نے میاں صاحب اور بی بی مریم نواز کی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی پر مہر لگا دی ہے کیونکہ یہ تو سچ ہے کہ شریف خاندان اور اس سے وابستہ رفقا و وزرا اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے عملی طور پر مرتکب ہو رہے ہیں تو کیا ایسے میں گلا لئی کا یہ انکشاف ن لیگ کے ’’ہتک عزت ‘‘ کے دعوے کے ساتھ ختم ہو جائے گا ؟ مقدر اور موقع ایک ساتھ کسی کو بھی نہیں ملتا کہ اکثر موقع ہوتا ہے مگر مقدر ساتھ نہیں دیتا اور اکثر مقدر ہوتا ہے مگر موقع نہیں ملتا جبکہ خان صاحب کے پاس یہ دونوں موجود تھے مگر انکی سیاسی بصیرت نے انھیں ہمیشہ دھوکا دیا بایں وجہ انھیں ادراک ہو چکا ہے کہ وزارت عظمی تو شائد ملنی نہیں تو کیوں نہ اپنی ازدواجی زندگی سنوار لیں ۔شنید ہے کہ ملکی حالات اور سیاسی ماحول کی گرما گرمی سے قطع نظر خان صاحب لند ن ہنی مون کے لیے جا نے کی تیاریوں میں مصروف ہیں کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ :
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے
اس گہما گہمی میں عوام کی کسی کو پروا نہیںہے یہی وجہ ہے کہ وہ موت کو مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں لیکن اگر ہم زندگی کو نہیں جانتے تو موت کو کیسے جان سکتے ہیں جبکہ زندگی بہت سادہ ہے مگر ہم مسلسل اس کو مشکل ترین بنانے پر زور دیتے ہیں بلاشبہ عوام کو سوچنا ہوگا اور لڑنا ہوگا ان لوگوں کے ساتھ جو ان کی زندگیوں کو مشکل بنا رہے ہیں سبھی ’’کرسی ‘‘ کے چکر میں ہیں کوئی عوام کا ہمدرد نہیں ہے ایسے میں عوام کو بیدار ہونا ہوگا جس دن ہم نے اپنے حق کو پہچان لیا اس دن ہم بحثیت قوم ایک زندہ و جاوید قوم کی طرح اپنے درخشاں مستقبل کو سوچیں گے اور حکمراں قرضے لیتے وقت یا بیرونی ممالک سے معاہدے کرتے وقت ملک و قوم کے مستقبل کی فکر کریں گے ۔