پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران میڈیا کے بھرپور کردار کے باعث اس کو عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے بعد ریاست کا چوتھا اہم ستون قرار دیا گیا ہے۔ اہم ملکی و سیاسی معاملات ہوں یا عدالتوں میں چل رہے اہم مقدمات، خارجہ و داخلہ امور سے متعلق بحث ہو یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی، میڈیا ان تمام ایشوز پر اپنی آواز مؤثر طور بلند کرتا نظر آیا ہے۔ 2007ء کی وکلاء تحریک کے دوران اور اسکے بعد میڈیا اور عدلیہ کا باہمی تعلق اور بھی زیادہ مضبوط ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں ججز بحالی، میمو گیٹ سکینڈل، این آر او کیس، سوئس حکام کو عدالتی احکامات کے باوجود سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کیسز دوبارہ کھولنے سے متعلق خط نہ لکھنے پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نااہلی، اہم وفاقی وزراء کی کرپشن الزامات میں عدالتی طلبی اور مختلف اہم ایشوز پر عدالتی ازخود نوٹس کیسز پاکستانی میڈیا میں خوب زیر بحث رہے جبکہ آجکل سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف جاری غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت بھی میڈیا کی مکمل توجہ حاصل کئے ہوئے ہے۔ تاہم چند حلقوں میں یہ عام ہے کہ ان بڑے اور اہم عدالتی واقعات کی بھرپور میڈیا کوریج کے دوران وہ توجہ طلب مسائل جن کا براہ راست تعلق عام آدمی کو بالخصوص ماتحت عدالتوں کے ذریعے انصاف تک رسائی سے ہے، اس طرح سے اُجاگر نہ ہو سکے جیسا انہیں کیا جانا چاہیے تھا۔سب سے پہلے پاکستانی میڈیا میں ماتحت عدالتوں اور بالخصوص پراسیکیوشن سے متعلق مسائل پر جاری کوریج پر ایک جامع اور تنقیدی نظر ڈال لیتے ہیں۔ عموماً ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ٹرائل کورٹس میں چلنے والے مقدمات کی اہمیت عدالتی فیصلے کے اعلان سے زیادہ نہیں ہوتی۔ قتل یا دہشت گردی مقدمے میں ملزم کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دیے جانے کی خبر کو ہی مقامی میڈیا میں نشر کرنے یا چھاپنے کے قابل سمجھا جاتا ہے جبکہ بار ایسوسی ایشنز کے ہونے والے سالانہ انتخابات کی کوریج سال میں ایک مرتبہ میڈیا میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہے۔ اگر متعلقہ اخباری رپورٹر بہت جان مارے تو شاید وہ نچلی عدالتوں کی ماہانہ یا سالانہ کارکردگی کے حوالے سے دستیاب اعداد و شمار چھاپ کر اپنی موجودگی کا پتہ دے دیتا ہے۔ لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ مقدمات میں پولیس کی نااہلی یا پراسیکیوٹرز کی عدم توجہی کے باعث کتنے سائل متاثر ہوئے، عدالتی التوا میں وکیل صفائی کے ساتھ ساتھ پراسیکیوٹر کا کیا کردار رہا، عدالتی چالان میں پائی جانے والے خامیوں کو دور کرنے اور قانونی بحث کے دوران متحرک نظر آنے کیلئے پراسیکیوٹرز نے کس حد تک اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی اور سب سے اہم یہ کہ ضلعی و صوبائی سطح پر قائم پراسیکیوشن سروس کی مجموعی کارکردگی کیا رہی، یہ وہ سب اہم نکات ہیں جو آجکل میڈیا میں جاری روزمرہ کوریج میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اس بیان کردہ روش کی چند بڑی وجوہات اگرچہ پہلے ہی بیان کی جا چکی ہیں تاہم متعلقہ رپورٹرز میں تربیت کا فقدان اور تحقیقی رجحان کا کم ہونا، عدالتی کارروائی کا مخصوص انداز میں آگے بڑھنا، صحافیوں پرمالکان کی جانب سے مخصوص انداز میں خبر دینے کا دبائو اور پراسیکیوشن محکمے کا میڈیا کے ساتھ رابطوں کا فقدان بھی مزید وجوہات کے طور گنے جا سکتے ہیں۔ میڈیا کو اس حوالے سے متحر ک کرنے کے سب سے پہلے پراسیکیوشن محکمے کو ہی آگے آنا ہو گا جس کیلئے ضلعی و صوبائی کوارڈینیشن کمیٹیوں میں میڈیا ترجمان یا سپیشلسٹ کی تعیناتی بہت ضروری ہے جو مقامی میڈیا کو محکمے اور پراسیکیوٹرز کی کارکردگی سے آگا ہ کرنے کے ساتھ ساتھ انکو درپیش انتظامی و مالی وسائل سے بھی آگاہ کرنے کا ذمہ دار ہو۔ دوسری جانب میڈیا خاص طور پر اخبارات سے وابستہ متعلقہ رپوٹرزکو اپنے اداروں کی جانب سے ضروری تربیت مہیا کیے جانے کے علاوہ مختلف تحقیقی پہلوئوں سے رپورٹنگ کرنے کا گر سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مختلف ڈائیلاگ فورمز اور مقامی صحافتی حلقوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے بین الاقوامی تنظیمیں بھی اپنا کردار بخوبی نبھا سکتی ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38