”مجھے معلوم ہے کہ مجھے سنا جا رہا ہے مگر میں یہ کہہ رہی ہوں کہ ’جج‘ نے ’جیوری‘ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا ہمیں خیال رکھنا ہو گا کہ اگر ملزمہ بے گناہ قرار دیدی جاتی ہے تو تمام ریاستی خفیہ ادارے دروغ گوئی کے گناہ گار قرار پا جائیں گے!“
’وقت نیوز‘ پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کے فیصلے کی خبر آتے ہی نیویارک میں ’وقت نیوز‘ کی نمائندہ محترمہ طیبہ ضیاءآن لائن تھیں! محترمہ طیبہ ضیاءکی فراہم کردہ تمام معلومات تمام چینل لے اڑے اور نیویارک اور واشنگٹن میں مقیم اپنے اپنے ’نمائندوں‘ سے انہی معلومات کی روشنی میں سوالات کرنے لگے مگر تمام ’نمائندے‘ اپنے ’چینلز‘ کی ’خبررسانی‘ سے زیادہ اہم دیار غیر میں اپنے مستقبل اور اپنی حیثیت کے تحفظ اور مزید استحکام کے لئے ’رطلب اللسان‘ پائے گئے! اور کوئی چینل اس سلسلے میں کوئی اور اہم بات ریکارڈ پر نہیں لا سکا!
عین ممکن ہے محترمہ عافیہ صدیقی کے وکلائے صفائی ”برتر عدالت‘ میں ’ماتحت عدالت‘ کے جج اور جیوری کے درمیان نشان زدہ ’مفاہمت‘ بھی زیربحث لائیں اور یوں ’ماتحت عدالت‘ کی ’عمومی فضا‘ میں موجود تعصب کی ناگوار ہوا کا بوجھل پن ثابت کر دکھائیں!
بلاشبہ یہ ’شہادت‘ ایک ناقابل تردید ثبوت بن سکتی ہے!
اس رات اس میدان سے فرار کی راہ ڈھونڈتے تمام نیوز چینل اپنے اپنے کیمرے اٹھا کر محترمہ عافیہ صدیقی کے گھر کے باہر جا کھڑے ہوئے! ایک جذباتی فضا کے ذریعے، اہم ترین بات گول کرنے کی کوشش کے دوران ’وقت نیوز‘ نے ’نیٹ شیل یا ’مغز‘ پر ارتکاز جاری رکھا اور محترمہ عافیہ صدیقی کی والدہ کا بیان نمایاں ہی نہیں کیا، اسے بار بار دہرایا بھی اور یوں تمام چینلز مزید جذباتی ہونے کی کوشش میں مبتلا ہو کر ’امریکی ایجنڈے‘ پر زیادہ سختی سے کارفرما ہو گئے اور یوں جناب رچرڈ ہالبروک کے لئے یہ کہنے کا موقع فراہم کر گئے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کو امریکی نظام عدل کا احترام کرنا چاہئے!
محترمہ طیبہ ضیاءنے روزنامہ نوائے وقت لاہور کے صفحات پر کالموں کے ایک سلسلے میں اسی موضوع پر بہت سے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا، امریکی نظام عدل سمجھایا اور اسے درست تناظر میں دکھایا اور ہم تک پہنچایا!
’نوائے وقت گروپ آف پبلی کیشنز‘ نے جس دلیری اور توازن کے ساتھ جتنی موثر آواز اٹھائی وہ کسی اور گروپ آف پیپرز کے چینلوں کا نصیب نہیں بن پائی، لہٰذا ہمارے نشانِ جمہوریت جناب مجید نظامی نے یہ کہہ کر ہمارا سر بھی فخر سے بلند کر دیا کہ ’محترمہ طیبہ ضیاءہمارے لئے قابل فخر کالم نگار ہیں!‘
اب جبکہ ”نشانِ جمہوریت“ نے محترمہ طیبہ ضیاءکے سر پر یہ تاج سجا دیا ہے، ہمارا ان کے لئے کوئی ’حرف سپاس‘ محض تحصیل لاحاصل ہو گا۔ لہٰذا مبارک ہو! اب سے پہلے یہ اعزاز کسی کے حصے میں نہیں آیا! بہت بہت مبارک!!
پاکستان روشن فکر قلم کاروں سے تہی نہیں ہوا! ہمارے عہد کے روشن ترین ستارے جناب عبدالعزیز خالد ہمارا ساتھ چھوڑ گئے تو ہم سوچ رہے تھے کہ یہ تخت تو خالی ہو گیا! مگر محترمہ طیبہ ضیاءنے یہ تخت خالی نہیں رہنے دیا! جناب عبدالعزیز خالد نے پاکستان میں روشن فکری کے آفاق پر انتہائی تابندہ کہکشاں چھوڑی ہے اور محترمہ طیبہ ضیاءاپنی کہکشاں ترتیب دے رہی ہیں! جناب عبدالعزیز خالد نے یہ کام ’شعر‘ کے ذریعے کیا تھا، محترمہ طیبہ ضیاءنے یہ کام ’نثر‘ میں کیا ہے اور یہ کام جاری رہے گا! کیونکہ آدمی ختم ہو جاتا ہے، کام باقی رہتا ہے!
اقبالؒ نے ہمیں ’صوفی اور ملاّ‘ سے بے زار کیا مگر ضیاءالحق نے انہیں دوبارہ ہمارے سر پر سوار کر دیا، جناب عبدالعزیز خالد نے اس دور میں یہ کام نئے سرے سے شروع کیا اور ان کی یہ تحریریں اسی دور میں ’نوائے وقت‘ کے ایڈیٹوریل پیج پر شائع ہوتی رہیں! آج محترمہ طیبہ ضیاءیہ کام کر رہی ہیں! اور یہی وہ موقع ہے جہاں یہ کہنا ضروری ہو جاتا ہے کہ کالم نگار کی جراتِ اظہار درحقیقت اس کے مدیرِ اعلیٰ کی بے باکی اور حق گوئی کے چسکے کا اشاریہ ہوتی ہے! نشانِ جمہوریت جناب مجید نظامی نے ان گنت ’جرا¿ت آزما‘ کالم نگار پیدا کئے مگر وہ سب ’کالم کار‘ بننے کے لئے ادھر ادھر ہو گئے!
بلاشبہ ہر شخص اچھا نہیں ہو سکتا مگر بقول شخصے ہمیں ہر شخص میں کسی نہ کسی اچھائی کی تلاش ضرور کرنا چاہئے! کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہے!
’وقت نیوز‘ پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کے فیصلے کی خبر آتے ہی نیویارک میں ’وقت نیوز‘ کی نمائندہ محترمہ طیبہ ضیاءآن لائن تھیں! محترمہ طیبہ ضیاءکی فراہم کردہ تمام معلومات تمام چینل لے اڑے اور نیویارک اور واشنگٹن میں مقیم اپنے اپنے ’نمائندوں‘ سے انہی معلومات کی روشنی میں سوالات کرنے لگے مگر تمام ’نمائندے‘ اپنے ’چینلز‘ کی ’خبررسانی‘ سے زیادہ اہم دیار غیر میں اپنے مستقبل اور اپنی حیثیت کے تحفظ اور مزید استحکام کے لئے ’رطلب اللسان‘ پائے گئے! اور کوئی چینل اس سلسلے میں کوئی اور اہم بات ریکارڈ پر نہیں لا سکا!
عین ممکن ہے محترمہ عافیہ صدیقی کے وکلائے صفائی ”برتر عدالت‘ میں ’ماتحت عدالت‘ کے جج اور جیوری کے درمیان نشان زدہ ’مفاہمت‘ بھی زیربحث لائیں اور یوں ’ماتحت عدالت‘ کی ’عمومی فضا‘ میں موجود تعصب کی ناگوار ہوا کا بوجھل پن ثابت کر دکھائیں!
بلاشبہ یہ ’شہادت‘ ایک ناقابل تردید ثبوت بن سکتی ہے!
اس رات اس میدان سے فرار کی راہ ڈھونڈتے تمام نیوز چینل اپنے اپنے کیمرے اٹھا کر محترمہ عافیہ صدیقی کے گھر کے باہر جا کھڑے ہوئے! ایک جذباتی فضا کے ذریعے، اہم ترین بات گول کرنے کی کوشش کے دوران ’وقت نیوز‘ نے ’نیٹ شیل یا ’مغز‘ پر ارتکاز جاری رکھا اور محترمہ عافیہ صدیقی کی والدہ کا بیان نمایاں ہی نہیں کیا، اسے بار بار دہرایا بھی اور یوں تمام چینلز مزید جذباتی ہونے کی کوشش میں مبتلا ہو کر ’امریکی ایجنڈے‘ پر زیادہ سختی سے کارفرما ہو گئے اور یوں جناب رچرڈ ہالبروک کے لئے یہ کہنے کا موقع فراہم کر گئے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کو امریکی نظام عدل کا احترام کرنا چاہئے!
محترمہ طیبہ ضیاءنے روزنامہ نوائے وقت لاہور کے صفحات پر کالموں کے ایک سلسلے میں اسی موضوع پر بہت سے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا، امریکی نظام عدل سمجھایا اور اسے درست تناظر میں دکھایا اور ہم تک پہنچایا!
’نوائے وقت گروپ آف پبلی کیشنز‘ نے جس دلیری اور توازن کے ساتھ جتنی موثر آواز اٹھائی وہ کسی اور گروپ آف پیپرز کے چینلوں کا نصیب نہیں بن پائی، لہٰذا ہمارے نشانِ جمہوریت جناب مجید نظامی نے یہ کہہ کر ہمارا سر بھی فخر سے بلند کر دیا کہ ’محترمہ طیبہ ضیاءہمارے لئے قابل فخر کالم نگار ہیں!‘
اب جبکہ ”نشانِ جمہوریت“ نے محترمہ طیبہ ضیاءکے سر پر یہ تاج سجا دیا ہے، ہمارا ان کے لئے کوئی ’حرف سپاس‘ محض تحصیل لاحاصل ہو گا۔ لہٰذا مبارک ہو! اب سے پہلے یہ اعزاز کسی کے حصے میں نہیں آیا! بہت بہت مبارک!!
پاکستان روشن فکر قلم کاروں سے تہی نہیں ہوا! ہمارے عہد کے روشن ترین ستارے جناب عبدالعزیز خالد ہمارا ساتھ چھوڑ گئے تو ہم سوچ رہے تھے کہ یہ تخت تو خالی ہو گیا! مگر محترمہ طیبہ ضیاءنے یہ تخت خالی نہیں رہنے دیا! جناب عبدالعزیز خالد نے پاکستان میں روشن فکری کے آفاق پر انتہائی تابندہ کہکشاں چھوڑی ہے اور محترمہ طیبہ ضیاءاپنی کہکشاں ترتیب دے رہی ہیں! جناب عبدالعزیز خالد نے یہ کام ’شعر‘ کے ذریعے کیا تھا، محترمہ طیبہ ضیاءنے یہ کام ’نثر‘ میں کیا ہے اور یہ کام جاری رہے گا! کیونکہ آدمی ختم ہو جاتا ہے، کام باقی رہتا ہے!
اقبالؒ نے ہمیں ’صوفی اور ملاّ‘ سے بے زار کیا مگر ضیاءالحق نے انہیں دوبارہ ہمارے سر پر سوار کر دیا، جناب عبدالعزیز خالد نے اس دور میں یہ کام نئے سرے سے شروع کیا اور ان کی یہ تحریریں اسی دور میں ’نوائے وقت‘ کے ایڈیٹوریل پیج پر شائع ہوتی رہیں! آج محترمہ طیبہ ضیاءیہ کام کر رہی ہیں! اور یہی وہ موقع ہے جہاں یہ کہنا ضروری ہو جاتا ہے کہ کالم نگار کی جراتِ اظہار درحقیقت اس کے مدیرِ اعلیٰ کی بے باکی اور حق گوئی کے چسکے کا اشاریہ ہوتی ہے! نشانِ جمہوریت جناب مجید نظامی نے ان گنت ’جرا¿ت آزما‘ کالم نگار پیدا کئے مگر وہ سب ’کالم کار‘ بننے کے لئے ادھر ادھر ہو گئے!
بلاشبہ ہر شخص اچھا نہیں ہو سکتا مگر بقول شخصے ہمیں ہر شخص میں کسی نہ کسی اچھائی کی تلاش ضرور کرنا چاہئے! کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہے!