حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ نے نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے حیران کن طور پر دو پاکستانی کھلاڑیوں کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے جس کے بعد کرکٹ میں ایک بار پھر ہلچل ہوئی ہے اور لوگوں کو میچ فکسنگ کے سابقہ دور یاد آ گئے ہیں۔ اس سے پہلے کئی پاکستانی سٹار اس الزام کے تحت سزا بھگت چکے ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میچ فکسنگ کا ایشو اس وقت ہی پیدا کیوں ہوتا ہے جب ٹیم میں گروپ بندی واضح نظر آنا شروع ہو جاتی ہے تو اس کا جواب صاف ہے کہ موجودہ کرکٹ میں کوئی بھی ایک کھلاڑی میچ فکس نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی ذاتی پرفارمنس اس اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ وہ میچ فکس کرکے میچ کا نتیجہ بدل دے۔ اس کے لئے ایک مضبوط اور صاحب اختیار گروپ کی ضرورت ہوتی ہے نہ صرف اپنے عمل سے ٹیم کو نقصان پہنچائے بلکہ کپتان اور کوچ پر بھی اپنی مرضی مسلط کرنے کی پوزیشن میں ہو اور جب بھی گروپنگ ہوئی ہے، میچ فکسنگ کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ یہ گروپ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کی مخالفت کیریئر کی قربانی دینے کے مترادف ہوتی ہے۔ اگر آپ نے ٹیم میں رہنا ہے تو چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ان وطن اور ضمیر فروشوں کا ساتھ دینا ہی پڑتا ہے۔ ان میں سے یا تو کوئی خود کپتان ہوتا ہے یا وہ کپتانی حاصل کرنے کے چکروں میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جسے کپتانی سے ہٹا دیا گیا وہ دوسرے کپتان کو ناکام ثابت کرنے کے لئے میچ فکسنگ میں لگ گیا۔ اعجاز بٹ صاحب نے حقیقت کا پردہ تو چاک کر دیا ہے لیکن عوام اس بات کی منتظر ہیں کہ ان چوروں کو کب منظرعام پر لایا جائے گا اور ان کے لئے کون سی کڑی سزا تجویز کی جائے گی۔ خدارا اب ہمیں اس لعنت سے چھٹکارا پا ہی لینا چاہئے ورنہ ٹیم نہ صرف اپنے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے دفاع میں ناکام ہو جائے گی بلکہ ٹیم آئندہ بھی کوئی ٹائٹل نہیں جیت سکے گی۔ میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑی کسی بھی قسم کی رعایت کے حقدار نہیں ہیں۔ قوم اور شائقین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اپنے تمام کام چھوڑ کر میچ دیکھتے ہیں اور ہمارے یہ لاڈلے گرا¶نڈ میں اتر کا قوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر قوم کی عزت اور وقار کا سودا کرتے ہیں۔ اس پر بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے یہ ذرا سی بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ چند روپوں کی خاطر اسی ملک کی عزت کا سودا کرتے ہیں جس کا پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ اگر آج انہیں چھوڑ دیا گیا تو کل ان کے جونیئر کھلاڑی یہی حرکت دہرائیں گے اور ملک کی بدنامی ہو گی۔ آج اگر کسی کھلاڑی نے میچ فکسنگ کی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان سے پہلے ایسی حرکت کرنے والے کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی۔ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ میچ فکسنگ روکنے کے لئے پہلے پلیئرز پاور کو نکیل ڈالنا ہو گی اور گروپ بندی کا قلع قمع کرنا ہو گا۔ چیئرمین پی سی بی کے اس انکشاف کے بعد کہ کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہیں، اب تمام کھلاڑیوں کے اثاثہ جات کی تفصیل اور ان کی کمائی کے ذرائع منظرعام پر لائے جائیں اور دیکھا جائے کہ کسی کھلاڑی نے آناً فاناً کروڑوں کے اثاثہ جات کیسے بنا لئے جو کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہے وہ کتنا بھی اہم کیوں نہیں، اسے عبرت کا نشان بنا دینا چاہئے اور اسے ایسی سزا دینی چاہئے کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ نے نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے حیران کن طور پر دو پاکستانی کھلاڑیوں کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے جس کے بعد کرکٹ میں ایک بار پھر ہلچل ہوئی ہے اور لوگوں کو میچ فکسنگ کے سابقہ دور یاد آ گئے ہیں۔ اس سے پہلے کئی پاکستانی سٹار اس الزام کے تحت سزا بھگت چکے ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میچ فکسنگ کا ایشو اس وقت ہی پیدا کیوں ہوتا ہے جب ٹیم میں گروپ بندی واضح نظر آنا شروع ہو جاتی ہے تو اس کا جواب صاف ہے کہ موجودہ کرکٹ میں کوئی بھی ایک کھلاڑی میچ فکس نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی ذاتی پرفارمنس اس اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ وہ میچ فکس کرکے میچ کا نتیجہ بدل دے۔ اس کے لئے ایک مضبوط اور صاحب اختیار گروپ کی ضرورت ہوتی ہے نہ صرف اپنے عمل سے ٹیم کو نقصان پہنچائے بلکہ کپتان اور کوچ پر بھی اپنی مرضی مسلط کرنے کی پوزیشن میں ہو اور جب بھی گروپنگ ہوئی ہے، میچ فکسنگ کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ یہ گروپ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کی مخالفت کیریئر کی قربانی دینے کے مترادف ہوتی ہے۔ اگر آپ نے ٹیم میں رہنا ہے تو چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ان وطن اور ضمیر فروشوں کا ساتھ دینا ہی پڑتا ہے۔ ان میں سے یا تو کوئی خود کپتان ہوتا ہے یا وہ کپتانی حاصل کرنے کے چکروں میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جسے کپتانی سے ہٹا دیا گیا وہ دوسرے کپتان کو ناکام ثابت کرنے کے لئے میچ فکسنگ میں لگ گیا۔ اعجاز بٹ صاحب نے حقیقت کا پردہ تو چاک کر دیا ہے لیکن عوام اس بات کی منتظر ہیں کہ ان چوروں کو کب منظرعام پر لایا جائے گا اور ان کے لئے کون سی کڑی سزا تجویز کی جائے گی۔ خدارا اب ہمیں اس لعنت سے چھٹکارا پا ہی لینا چاہئے ورنہ ٹیم نہ صرف اپنے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے دفاع میں ناکام ہو جائے گی بلکہ ٹیم آئندہ بھی کوئی ٹائٹل نہیں جیت سکے گی۔ میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑی کسی بھی قسم کی رعایت کے حقدار نہیں ہیں۔ قوم اور شائقین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اپنے تمام کام چھوڑ کر میچ دیکھتے ہیں اور ہمارے یہ لاڈلے گرا¶نڈ میں اتر کا قوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر قوم کی عزت اور وقار کا سودا کرتے ہیں۔ اس پر بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے یہ ذرا سی بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ چند روپوں کی خاطر اسی ملک کی عزت کا سودا کرتے ہیں جس کا پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ اگر آج انہیں چھوڑ دیا گیا تو کل ان کے جونیئر کھلاڑی یہی حرکت دہرائیں گے اور ملک کی بدنامی ہو گی۔ آج اگر کسی کھلاڑی نے میچ فکسنگ کی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان سے پہلے ایسی حرکت کرنے والے کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی۔ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ میچ فکسنگ روکنے کے لئے پہلے پلیئرز پاور کو نکیل ڈالنا ہو گی اور گروپ بندی کا قلع قمع کرنا ہو گا۔ چیئرمین پی سی بی کے اس انکشاف کے بعد کہ کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہیں، اب تمام کھلاڑیوں کے اثاثہ جات کی تفصیل اور ان کی کمائی کے ذرائع منظرعام پر لائے جائیں اور دیکھا جائے کہ کسی کھلاڑی نے آناً فاناً کروڑوں کے اثاثہ جات کیسے بنا لئے جو کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہے وہ کتنا بھی اہم کیوں نہیں، اسے عبرت کا نشان بنا دینا چاہئے اور اسے ایسی سزا دینی چاہئے کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں۔