محمد اشرف چودھری
دورہ¿ آسٹریلیا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور دوسری طرف قومی کھلاڑیوں کی غیرقانونی سرگرمیوں نے پاکستان کی کرکٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ 3 مارچ 2009ءپاکستان کرکٹ کا سیاہ ترین دن ہے۔ جب پاکستان کے دورہ پر آئی مہمان سری لنکن ٹیم دہشت گردی کا شکار ہو گئی۔ اس واقعہ کے بعد ملک میں بین الاقوامی کھیلوں کا راستہ بند ہو گیا۔ ایک سال گزر گیا مگر ابھی تک ذمہ داران کا تعین نہ ہو سکا۔ اس لئے کسی کو سزا نہیں ہو سکی۔ سری لنکن ٹیم کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکومت پر عائد ہوتی تھی اور یہ بات منظرعام پر بھی آ گئی کہ سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے واقعہ پیش آیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی قائمہ کمیٹی برائے کھیل کو اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ سکیورٹی حکام واقعہ کے ذمہ دار لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ آسٹریلیا کے دورہ سے قبل پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اس بات کا اعلان کر رہے کہ آسٹریلیا کی موجودہ ٹیم جتنی اس وقت کمزور ہے ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ لہٰذا پاکستان ٹیم کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ ٹیم کے کوچ انتخاب عالم نے بھی اسی قسم کے دعوے کئے تھے لیکن قومی کھلاڑیوں نے جس طریقے سے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے یہ بات ظاہر ہو رہی تھی کہ شاید ٹیم میں گروپ بندی کی وجہ سے ایسا ہوا لیکن اب یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ گروپ بندی سے بڑا بھی ایشو ٹیم میں موجود تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ کو آئی سی سی میٹنگ کے دوران جب قومی کھلاڑیوں کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے ثبوت دئیے گئے تو کیا عزت رہی ہو گی۔ اعجاز بٹ اس بات کی بھی تصدیق کر چکے ہیں کہ انہیں کھلاڑیوں کے بارے میں علم ہے اور آئی سی سی نے جو ثبوت دئیے ہیں وہ درست ہیں۔ چیئرمین کی اس بات سے کھلاڑیوں کے بارے میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کون تھے۔ وہ جو بھی کھلاڑی ہیں بورڈ کو ان کے بارے میں پتہ چل گیا ہے۔ لہذا کھلاڑیوں کو عبرتناک سزا دی جائے۔ شعیب اختر کو اگر سنٹرل کنٹریکٹ کی خلاف ورزی پر 70 لاکھ روپے جرمانہ اور پابندی کی سزا سنائی جا سکتی ہے تو میح فکسنگ میں ملوث پائے گئے کھلاڑیوں سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔
دورہ¿ آسٹریلیا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور دوسری طرف قومی کھلاڑیوں کی غیرقانونی سرگرمیوں نے پاکستان کی کرکٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ 3 مارچ 2009ءپاکستان کرکٹ کا سیاہ ترین دن ہے۔ جب پاکستان کے دورہ پر آئی مہمان سری لنکن ٹیم دہشت گردی کا شکار ہو گئی۔ اس واقعہ کے بعد ملک میں بین الاقوامی کھیلوں کا راستہ بند ہو گیا۔ ایک سال گزر گیا مگر ابھی تک ذمہ داران کا تعین نہ ہو سکا۔ اس لئے کسی کو سزا نہیں ہو سکی۔ سری لنکن ٹیم کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکومت پر عائد ہوتی تھی اور یہ بات منظرعام پر بھی آ گئی کہ سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے واقعہ پیش آیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی قائمہ کمیٹی برائے کھیل کو اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ سکیورٹی حکام واقعہ کے ذمہ دار لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ آسٹریلیا کے دورہ سے قبل پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اس بات کا اعلان کر رہے کہ آسٹریلیا کی موجودہ ٹیم جتنی اس وقت کمزور ہے ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ لہٰذا پاکستان ٹیم کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ ٹیم کے کوچ انتخاب عالم نے بھی اسی قسم کے دعوے کئے تھے لیکن قومی کھلاڑیوں نے جس طریقے سے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے یہ بات ظاہر ہو رہی تھی کہ شاید ٹیم میں گروپ بندی کی وجہ سے ایسا ہوا لیکن اب یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ گروپ بندی سے بڑا بھی ایشو ٹیم میں موجود تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ کو آئی سی سی میٹنگ کے دوران جب قومی کھلاڑیوں کے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے ثبوت دئیے گئے تو کیا عزت رہی ہو گی۔ اعجاز بٹ اس بات کی بھی تصدیق کر چکے ہیں کہ انہیں کھلاڑیوں کے بارے میں علم ہے اور آئی سی سی نے جو ثبوت دئیے ہیں وہ درست ہیں۔ چیئرمین کی اس بات سے کھلاڑیوں کے بارے میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کون تھے۔ وہ جو بھی کھلاڑی ہیں بورڈ کو ان کے بارے میں پتہ چل گیا ہے۔ لہذا کھلاڑیوں کو عبرتناک سزا دی جائے۔ شعیب اختر کو اگر سنٹرل کنٹریکٹ کی خلاف ورزی پر 70 لاکھ روپے جرمانہ اور پابندی کی سزا سنائی جا سکتی ہے تو میح فکسنگ میں ملوث پائے گئے کھلاڑیوں سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔