نہ وہ ہمارے ہوئے اور نہ ہم رہے اپنے
محبتوں کا عجب کاروبار ہم نے کیا
گزشتہ ہفتہ کے دوران تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے وائٹ ہاﺅس میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی‘ اس نشست میں اوباما نے دلائی لامہ کے چینی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے اور عدم تشدد کے عزائم کو سراہا۔ مزید براں دونوں رہنماﺅں نے امریکہ چین مثبت تعاون پر مبنی تعلقات کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔ چین نے اس ملاقات کو عالمی اصولوں کے منافی اور چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے اور بیجنگ میں امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے۔ اس طرح دلائی لامہ کے ساتھ باراک اوباما کی ملاقات چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی نئی وجہ بن گئی ہے۔ تبت کے مسئلہ پر بیجنگ اور واشنگٹن میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چین کا کہنا یہ ہے کہ تبت اس کا ایک لازمی حصہ ہے جبکہ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ دلائی لامہ تبت کا روحانی پیشوا اور حکمران ہے جسے اس کے روحانی اور سیاسی مقام سے محروم کرکے دربدر کردیا گیا ہے۔ تاریخی حوالے سے دلائی لامہ کو 1959ءمیں اپنے وطن کو خیرآباد کہہ کر بھارت میں پناہ لینا پڑی تھی۔ اب وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کر رہا ہے۔ 19 فروری کو اس نے امریکی صدر سے ملاقات کرکے تبت کے لوگوں کیلئے انکی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ دلائی لامہ تبت میں بدھ مت (پیلے ہیٹ) کا روحانی پیشوا ہے جسے خدا کا مجسم اور اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ جب کوئی لامہ فوت ہونے لگتا ہے تو وہ یہ بتا دیتا ہے کہ وہ اپنے آئندہ جنم میں کس گھرانے میں پیدا ہو گا۔ عقیدے کے مطابق لامہ کی وفات کے 49 روز بعد اسکی روح ایک نوزائیدہ بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ دلائی لامہ کا خطاب سب سے پہلے منگول بادشاہ التان خان (وفات 1583) نے دیا تھا۔ بعدازاں منگولوں نے پانچویں دلائی لامہ گوانگ لوپ سانگ گیاتسو 1617-82 کو تبت کے روحانی اور سیاسی رہنما کا مقام دیا۔ 1950ءمیں چین کی آزادی کے بعد چودھویں دلائی لامہ نے وقتی طور پر جلاوطنی اختیار کی‘ کیونکہ تبت کو چین میں شامل کرلیا گیا تھا۔ 1959ءمیں تبت میں بدھ مت کے پیروکاروں نے بغاوت کا علم بلند کیا مگر چینی حکومت نے آہنی ہاتھوں سے اس بغاوت کو کچل دیا۔ 25 دسمبر 1959ءکو دلائی لامہ نے بھاگ کر بھارت میں پناہ لے لی۔ 1965ءمیں چین نے تبت کو ایک آزاد خود مختار علاقے کا درجہ دے دیا۔ ثقافتی انقلاب نے مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی اور چار ہزار بدھ عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔ بعدازاں 1987ءسے 1989ءتک کے عرصے میں چینی فوج نے دوبارہ تبت میں بدھ مت کی سیاسی آزادی کے لئے کی جانے والی سرگرمیوں کو دبا دیا۔ 1989ءمیں دلائی لامہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔
بین الاقوامی سطح پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر تبت کے مسئلہ کو زندہ رکھا ہوا ہے‘ مزید برآن واشنگٹن عوامی جمہوریہ چین کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ دوسری جانب دلائی لامہ بھی دنیا کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کرکے اپنے موقف کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ تاہم چین کا کہنا یہ ہے کہ تبت اس کا لازمی حصہ ہے اور کسی دوسرے ملک کو اسکے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت چین کے موقف سے اتفاق کرتی ہے لیکن بھارت نے دلائی لامہ کو پناہ دیکر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ تبت کو چین کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔ یہ مسئلہ بھی چین اور بھارت کے درمیان ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے۔
محبتوں کا عجب کاروبار ہم نے کیا
گزشتہ ہفتہ کے دوران تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے وائٹ ہاﺅس میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی‘ اس نشست میں اوباما نے دلائی لامہ کے چینی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے اور عدم تشدد کے عزائم کو سراہا۔ مزید براں دونوں رہنماﺅں نے امریکہ چین مثبت تعاون پر مبنی تعلقات کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔ چین نے اس ملاقات کو عالمی اصولوں کے منافی اور چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے اور بیجنگ میں امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے۔ اس طرح دلائی لامہ کے ساتھ باراک اوباما کی ملاقات چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی نئی وجہ بن گئی ہے۔ تبت کے مسئلہ پر بیجنگ اور واشنگٹن میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چین کا کہنا یہ ہے کہ تبت اس کا ایک لازمی حصہ ہے جبکہ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ دلائی لامہ تبت کا روحانی پیشوا اور حکمران ہے جسے اس کے روحانی اور سیاسی مقام سے محروم کرکے دربدر کردیا گیا ہے۔ تاریخی حوالے سے دلائی لامہ کو 1959ءمیں اپنے وطن کو خیرآباد کہہ کر بھارت میں پناہ لینا پڑی تھی۔ اب وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کر رہا ہے۔ 19 فروری کو اس نے امریکی صدر سے ملاقات کرکے تبت کے لوگوں کیلئے انکی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ دلائی لامہ تبت میں بدھ مت (پیلے ہیٹ) کا روحانی پیشوا ہے جسے خدا کا مجسم اور اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ جب کوئی لامہ فوت ہونے لگتا ہے تو وہ یہ بتا دیتا ہے کہ وہ اپنے آئندہ جنم میں کس گھرانے میں پیدا ہو گا۔ عقیدے کے مطابق لامہ کی وفات کے 49 روز بعد اسکی روح ایک نوزائیدہ بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ دلائی لامہ کا خطاب سب سے پہلے منگول بادشاہ التان خان (وفات 1583) نے دیا تھا۔ بعدازاں منگولوں نے پانچویں دلائی لامہ گوانگ لوپ سانگ گیاتسو 1617-82 کو تبت کے روحانی اور سیاسی رہنما کا مقام دیا۔ 1950ءمیں چین کی آزادی کے بعد چودھویں دلائی لامہ نے وقتی طور پر جلاوطنی اختیار کی‘ کیونکہ تبت کو چین میں شامل کرلیا گیا تھا۔ 1959ءمیں تبت میں بدھ مت کے پیروکاروں نے بغاوت کا علم بلند کیا مگر چینی حکومت نے آہنی ہاتھوں سے اس بغاوت کو کچل دیا۔ 25 دسمبر 1959ءکو دلائی لامہ نے بھاگ کر بھارت میں پناہ لے لی۔ 1965ءمیں چین نے تبت کو ایک آزاد خود مختار علاقے کا درجہ دے دیا۔ ثقافتی انقلاب نے مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی اور چار ہزار بدھ عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔ بعدازاں 1987ءسے 1989ءتک کے عرصے میں چینی فوج نے دوبارہ تبت میں بدھ مت کی سیاسی آزادی کے لئے کی جانے والی سرگرمیوں کو دبا دیا۔ 1989ءمیں دلائی لامہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔
بین الاقوامی سطح پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر تبت کے مسئلہ کو زندہ رکھا ہوا ہے‘ مزید برآن واشنگٹن عوامی جمہوریہ چین کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ دوسری جانب دلائی لامہ بھی دنیا کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کرکے اپنے موقف کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ تاہم چین کا کہنا یہ ہے کہ تبت اس کا لازمی حصہ ہے اور کسی دوسرے ملک کو اسکے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت چین کے موقف سے اتفاق کرتی ہے لیکن بھارت نے دلائی لامہ کو پناہ دیکر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ تبت کو چین کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔ یہ مسئلہ بھی چین اور بھارت کے درمیان ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے۔