سعد اللہ شاہ
بارہ ربیع الاوّل کے روز امام النبیین و خاتم المرسلین آنحضرت محمد ﷺ کی ولادتِ سعید ہوئی۔ حضرت عبداللہؓ اور حضرت آمنہؓ کا لعل ان کے مقدر کا ستارہ ہی نہیں پورے بنی نوع انسان کا سہارا ہے۔ جس کی نسبت آپ کے ساتھ ٹھہر گئی وہ ہمیشگی پا گیا۔ مائی حلیمہ سعدیہ نے آپ کو گود کھلایا تو وہ رتبہ پایا کہ آسمانِ نیلگوں رشک کرے۔ آپ پر بعثت کا سلسلہ ختم ہوا اور آپ خاتم النبیین ٹھہرے۔ آپ رحمت اللعالمین ہیں۔ آپ کی بزرگی و عظمت خدا نے بیان کی ”ورفعنا لک ذکرک“ بعد از خدا بزرگ توی قصہ مختصر۔ کس کو یارا کہ اس کے بعد ذکرِ مصطفےٰ کا حق ادا کر سکے۔ غالب نے کہا تھا:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کان ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
آپ کی ہستی کو قیامت تک آنے والوں کے لیے رہنما بنا دیا گیا۔ آپ کی سیرت ہی زندگی کی صحیح صورت گری کر سکتی ہے۔ آپ پر دنیا کی سب سے عظیم کتاب قرآنِ کریم اتاری گئی جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں اور جو متقین کے لیے ہدایت ہے گویا اللہ نے انسان کے لیے ہدایت کو آپ کی صورت میں متشکل فرمایا۔ قرآنِ ناطق یعنی آپ قرآن کی عملی شکل ہیںجو خدا کا دیا ہوا آئین‘ قانون‘ نصاب اور دستورِ حیات ہے۔ آپ کی تعلیمات امن‘ اخلاق‘ بھائی چارہ‘ روا داری‘ محبت‘ برابری‘ انصاف اور جرا¿ت کا سبق دیتی ہیں۔ آپ تو نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کہلائے۔ قرآن کھولیں تو آپ کی سیرت جگہ جگہ جگمگاتی نظر آتی ہے:
اے محمد تو سب سے اعلیٰ ہے
پورا قرآں ترا حوالہ ہے
جس کے دل میں تری محبت ہے
اس کے چاروں طرف اجالا ہے
آپ کی اسی عظمتِ کردار نے اہلِ کفر کو بے بس کر رکھا ہے کہ آپ کی تعلیمات کے جواب میں وہ گنگ ہیں۔ عقل و دانش کے علمبردار دشمنی میں عام اخلاقیات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ آپ کی سیرت کا جواب نہیں دے سکتے تو گستاخانہ فرضی خاکے بنا کر اپنی کمینگی اور بدبودار ذہنیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ کاش ان کو توفیق ملے کہ میرے آقا کے اخلاقیات پڑھ لیں تو ان کی مشامِ جاں معطر ہو جائے‘ ان کی روح سرشاری سے ہمکنار ہو اور ان کے رگ و پے میں انسانیت جاگ اٹھے اور پھر وہ نادم و شرمندہ ہو کر اللہ سے توبہ کرلیں۔
12ربیع الاول کا دن اصل میں تجدیدِ عہد کا دن بھی ہے کہ آقا سے محبت اور عشق اپنے دل و دماغ میں راسخ کریں کیونکہ بغیر آپ کی اتباع کے کچھ نہیں۔ آپ کی پیروی ہی آپ سے نسبت کی دلیل ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے کہا تھا:
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ¿ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
خدا نے آپ کی ذات کو کسوٹی قرار دے دیا جو آپ کا ہوا‘ خدا کا ہوا۔ اقبالؓ نے جوابِ شکوہ میں کیا خوب کہا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آپ کے لئے نعت کے تین شعر:
زمین کچھ بھی نہیں آسمان کچھ بھی نہیں
جو تو نہیں ہے تو سارا جہان کچھ بھی نہیں
ترے ہی نام سے پہچان ہے مرے آقا
وگرنہ اپنا تو نام و نشان کچھ بھی نہیں
دل و زباں پہ رہے بس ہمیشہ صل علیٰ
وگرنہ سعد یہ دل اور زبان کچھ بھی نہیں
بارہ ربیع الاوّل کے روز امام النبیین و خاتم المرسلین آنحضرت محمد ﷺ کی ولادتِ سعید ہوئی۔ حضرت عبداللہؓ اور حضرت آمنہؓ کا لعل ان کے مقدر کا ستارہ ہی نہیں پورے بنی نوع انسان کا سہارا ہے۔ جس کی نسبت آپ کے ساتھ ٹھہر گئی وہ ہمیشگی پا گیا۔ مائی حلیمہ سعدیہ نے آپ کو گود کھلایا تو وہ رتبہ پایا کہ آسمانِ نیلگوں رشک کرے۔ آپ پر بعثت کا سلسلہ ختم ہوا اور آپ خاتم النبیین ٹھہرے۔ آپ رحمت اللعالمین ہیں۔ آپ کی بزرگی و عظمت خدا نے بیان کی ”ورفعنا لک ذکرک“ بعد از خدا بزرگ توی قصہ مختصر۔ کس کو یارا کہ اس کے بعد ذکرِ مصطفےٰ کا حق ادا کر سکے۔ غالب نے کہا تھا:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کان ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
آپ کی ہستی کو قیامت تک آنے والوں کے لیے رہنما بنا دیا گیا۔ آپ کی سیرت ہی زندگی کی صحیح صورت گری کر سکتی ہے۔ آپ پر دنیا کی سب سے عظیم کتاب قرآنِ کریم اتاری گئی جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں اور جو متقین کے لیے ہدایت ہے گویا اللہ نے انسان کے لیے ہدایت کو آپ کی صورت میں متشکل فرمایا۔ قرآنِ ناطق یعنی آپ قرآن کی عملی شکل ہیںجو خدا کا دیا ہوا آئین‘ قانون‘ نصاب اور دستورِ حیات ہے۔ آپ کی تعلیمات امن‘ اخلاق‘ بھائی چارہ‘ روا داری‘ محبت‘ برابری‘ انصاف اور جرا¿ت کا سبق دیتی ہیں۔ آپ تو نبوت سے پہلے ہی صادق اور امین کہلائے۔ قرآن کھولیں تو آپ کی سیرت جگہ جگہ جگمگاتی نظر آتی ہے:
اے محمد تو سب سے اعلیٰ ہے
پورا قرآں ترا حوالہ ہے
جس کے دل میں تری محبت ہے
اس کے چاروں طرف اجالا ہے
آپ کی اسی عظمتِ کردار نے اہلِ کفر کو بے بس کر رکھا ہے کہ آپ کی تعلیمات کے جواب میں وہ گنگ ہیں۔ عقل و دانش کے علمبردار دشمنی میں عام اخلاقیات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ آپ کی سیرت کا جواب نہیں دے سکتے تو گستاخانہ فرضی خاکے بنا کر اپنی کمینگی اور بدبودار ذہنیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ کاش ان کو توفیق ملے کہ میرے آقا کے اخلاقیات پڑھ لیں تو ان کی مشامِ جاں معطر ہو جائے‘ ان کی روح سرشاری سے ہمکنار ہو اور ان کے رگ و پے میں انسانیت جاگ اٹھے اور پھر وہ نادم و شرمندہ ہو کر اللہ سے توبہ کرلیں۔
12ربیع الاول کا دن اصل میں تجدیدِ عہد کا دن بھی ہے کہ آقا سے محبت اور عشق اپنے دل و دماغ میں راسخ کریں کیونکہ بغیر آپ کی اتباع کے کچھ نہیں۔ آپ کی پیروی ہی آپ سے نسبت کی دلیل ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے کہا تھا:
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ¿ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
خدا نے آپ کی ذات کو کسوٹی قرار دے دیا جو آپ کا ہوا‘ خدا کا ہوا۔ اقبالؓ نے جوابِ شکوہ میں کیا خوب کہا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آپ کے لئے نعت کے تین شعر:
زمین کچھ بھی نہیں آسمان کچھ بھی نہیں
جو تو نہیں ہے تو سارا جہان کچھ بھی نہیں
ترے ہی نام سے پہچان ہے مرے آقا
وگرنہ اپنا تو نام و نشان کچھ بھی نہیں
دل و زباں پہ رہے بس ہمیشہ صل علیٰ
وگرنہ سعد یہ دل اور زبان کچھ بھی نہیں