شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر آج مجھے پیپلزپارٹی اور اسکے خیرخواہوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے واقعات شدت سے یاد آرہے ہیں۔ خود مجھے بھی اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کیخلاف وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ عدالت میں پیش کئے بغیر میرا جوڈیشل ریمانڈ لیا جاتا رہا‘ مقصد صرف مجھے میڈیا سے دور رکھنا تھا۔ اڈیالہ جیل میں مجھے ایک سال تین ماہ تک رکھنے کے بعد ضمانت پر رہائی ملی۔ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ نے میری درخواست ضمانت منظور کی تھی۔ ضمانت کے بعد میں نے جنرل (ر) نصیراللہ بابر کی موجودگی میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے انکی اقامت گاہ ایف 8- اسلام آباد میں ملاقات کی اور ہم تینوں نے آصف علی زرداری کی گرفتاری سمیت مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں قائم کئے گئے احتساب بیورو اور پھر صدر فاروق لغاری کی جانب سے اٹھائے جانیوالے پیپلزپارٹی مخالف اقدامات پر تفصیلی غور کیا۔
نوازشریف کی حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زردای کیخلاف جارحانہ رویہ رکھتی تھی اور پوری انتظامی مشینری انکے اور انکے ساتھیوں کے پیچھے لگا دی گئی تھی۔ میری ضمانت پر رہائی کے کچھ ہی دنوں بعد میرے گھر کے سامنے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ میری اور میرے اہل خانہ کی زندگیوں کو لاحق ہونیوالے خطرات کی بنیاد پر شہید بے نظیر بھٹو نے مجھے ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا کیونکہ مارگلہ پولیس نے مجھ پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا اور وزارت داخلہ نے بھی پولیس کیخلاف میری درخواست درخوراعتناء نہیں سمجھی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشورے پر میں افغانستان کے راستے یورپ روانہ ہو گیا جو انتہائی خطرناک سفر تھا کیونکہ افغانستان کے جس راستے سے میں نے بذریعہ سڑک رخت سفر باندھا وہ طالبان کے زیرکنٹرول تھا۔ میں بمشکل تمام دو ہفتے میں کابل اور جلال آباد سے آسٹریلیا پہنچا جہاں سے میں برطانیہ روانہ ہوا۔ میری ان سفری مشکلات پر مشتمل روئیداد کی بی بی سی نے ڈاکومنٹری بھی بنائی جو انٹرنیٹ پر ’’فرام پاکستان ٹو پارک لینڈ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ موجود ہے۔ میرے برطانیہ پہنچنے کے چند روز بعد محترمہ بے نظیر بھٹو بھی لندن آگئیں جس کیلئے انہوں نے عدالت سے باقاعدہ اجازت حاصل کی تھی۔ انہوں نے آصف علی زرداری کے ایسوسی ایٹ مسٹر پاشا کی اقامت گاہ پر چند پارٹی لیڈران کی غیررسمی میٹنگ بلائی اور اپنی سیاسی جدوجہد کا جائزہ لیتے ہوئے جدوجہد کے اگلے مراحل کی حکمت عملی طے کی جس کیلئے پارٹی کے ارکان کی بعض ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ مجھے فخر ہے کہ اس میٹنگ میں پارٹی کی سیاسی جدوجہد کے حوالے سے مجھے بھی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ میں نے ایک سیکنڈہینڈ کار خریدی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا ڈرائیور بن کر اسی کار پر لندن میں انکی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ محترمہ کی ان سرگرمیوں میں اکثر اوقات واجد شمس الحسن اور بشیر ریاض بھی انکے شریک سفر ہوتے جو اس وقت خود بھی جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری‘ آصفہ اور بختاور کو آج بھی میری پرانی کار یاد ہوگی جس پر میں انہیں بھی کبھی کبھار آئس کریم کھلانے لے جاتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز میرے برادر نسبتی ڈاکٹر ظہیر ناصر کے کرائے کے ایک مکان سے کیا گیا۔ وہ خود بھی پاکستان میں انتقامی کارروائی کا نشانہ بن چکے تھے اور جلاوطنی پر مجبور ہوئے تھے۔ میں نے اس گھر کے بیسمنٹ کو پیپلزپارٹی کے آفس میں تبدیل کردیا جہاں پانچ سو تک افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی۔ چنانچہ پارٹی میٹنگز کیلئے یہ جگہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پسندیدہ جگہ بن گئی۔ وہ دبئی یا امریکہ سے واپس آتیں تو لندن میں ہمارے ہی گھر قیام کرتیں۔ میری اہلیہ ڈاکٹر سعیدہ رحمان بھی انکی اچھی دوست بن چکی تھیں۔ اس گھر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کیلئے مخصوص بیڈروم کے ایک کونے پر آج بھی وہ چھوٹی سی فریج موجود ہے جس میں انکے پسندیدہ چاکلیٹ موجود ہوتے تھے۔ وہ گلابی رنگ کی آئس کریم کھانا پسند کرتی تھیں جو صرف بینرواٹر میں ایک سٹور پر دستیاب تھی۔ یہ سٹور میری رہائش گاہ سے زیادہ دور نہیں تھا اس لئے ہمیں مطلوبہ آئس کریم لانے میں کبھی دقت محسوس نہ ہوتی۔ میں نے اپنے ایک عراقی دوست کی مدد سے تیل کا کاروبار شروع کیا جو میری معقول اضافی آمدنی کا ذریعہ بنا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اپنی خواہش پر میری بزنس پارٹنر بن گئیں۔ میں نے دبئی میں بھی اپنا ایک دفتر قائم کرلیا جس میں میرے بیٹے نے میری معاونت کی۔
اسی دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کے ساتھ روابط کیلئے ای میل نیٹ ورک قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تناظر میں انکی سیاست کو ای میل سیاست سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے انہوں نے میرے بیسمنٹ والے پیپلزپارٹی کے دفتر میں پاکستان میں پیپلزپارٹی کے عہدیداروں اور لیڈران کے ساتھ روابط کا سلسلہ شروع کیا۔ اس حوالے سے میں اپنے سابق پی ایس او مسٹر سجاد حیدر کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے نہ صرف کاروبار چلانے میں میری معاونت کی بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی تفویض کردہ میری سیاسی ذمہ داریوں میں بھی میری معاونت کرتے رہے۔ میں نے درحقیقت اپنے دفتر کو پیپلز پارٹی کا خاندان بنا دیا تھا جس کیلئے پیپلزپارٹی لندن کے سابق صدر چودھری ریاض میرے شریک کار رہے۔ اسی آفس میں میرے دیرینہ دوست سلمان تاثیر اور انکے صاحبزادے شہریار تاثیر بھی آیا کرتے تھے۔ صدر آصف علی زرداری نے میری ہی سفارش پر سلمان تاثیر کو گورنر پنجاب کے منصب پر نامزد کیا تھا۔ انہوں نے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ میرے دبئی والے آفس میں ہی ملاقات کی تھی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو کوٹیکنا کیس میں سزائیں ہوئیں تو پیپلزپارٹی میں سخت غم و غصہ کی فضا پیدا ہوگئی۔ ہم نے یہ فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سنا اور میں نے محسوس کیا کہ محترمہ یہ فیصلہ سن کر بہت اپ سیٹ ہوئی تھیں۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ اس سراسر جھوٹے کیس میں بہت جلد سرخرو ہوں گی۔ مجھے دراصل اپنے انٹیلی جنس ذرائع سے بعض معلومات حاصل ہو گئی تھیں کہ یہ فیصلہ اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس راشد عزیز خان کی ہدایات کی روشنی میں صادر ہوا ہے۔ مسٹر بشیر ریاض‘ واجد شمس الحسن اور پیپلزپارٹی کے بعض دوسرے لیڈران اس امر کے گواہ ہیں کہ میں نے اس کیس سے متعلق ٹیپ سکینڈل بعض معروف اخبارات کے ذریعے کس طرح منظرعام پر لانے کا اہتمام کیا تھا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسی کی بنیاد پر عوامی دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ٹیپ سکینڈل کیلئے مسٹر رحیم کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے متعلقہ جج کے ساتھ حکومتی اور عدالتی شخصیات کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کرنے کا اہتمام کیا اور اس ’’مشن امپوسیبل‘‘ کی تکمیل کرکے دکھائی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے کس طرح مسٹر رحیم کے آسٹریا کے ویزے کا برطانوی رائل فیملی کے ایک رکن کی معاونت سے اہتمام کیا تھا۔ میں نے مسٹر رحیم سے اوریجنل ٹیپ حاصل کی اور انہیں آسٹریا میں اپنے ایک بھیتجے کے ذریعے اکاموڈیٹ کرایا۔ پھر میں نے سنڈے ٹائمز کے ڈپٹی ایڈیٹر کو اپنے ہمرہ آسٹریا لے جاکر مسٹر رحیم کا انٹرویو کرایا۔ اسکے دوران لندن کی ایک فرانزک لیبارٹری میں ٹیپ میں موجود آوازوں کا موازنہ بھی کرایا گیا جس کیلئے پیپلزپارٹی کے ایک پرانے ورکر محسن باری نے معاونت کی۔ اسی طرح میں نے اپنے سٹیلائٹ ڈی ایم ٹی وی کے ذریعے لندن سے یادگار پاکستان لاہور میں منعقدہ پیپلزپارٹی کے جلسے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر براڈکاسٹ کرنے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے یہ تقریر اردو زبان میں بشیر ریاض‘ واجد شمس الحسن اور میری موجودگی میں خود تیار کی تھی۔ میں نے اس تقریر کی ٹیپ مسٹر باری کے ذریعے لندن سے لاہو ر پیپلزپارٹی پنجاب کے اس وقت کے صدر قاسم ضیاء تک پہنچائی اور ٹیپ سکینڈل کا خفیہ مشن احسن انداز میں پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ اس وقت بلاول‘ بختاور اور آصفہ بہت چھوٹے تھے اور دبئی میں مقیم تھے اور تعطیلات کے دوران برطانیہ آیا کرتے تھے۔
جب ٹیپ سکینڈل معروف برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے ذریعے منظرعام پر آیا تو اس سے جنرل پرویز مشرف اور انکی ٹیم کو سخت پریشانی لاحق ہوئی۔ اگلا اقدام اس ٹیپ کو سپریم کورٹ تک پہنچانے کا تھا جسے عدالت میں اضافی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ ٹیپ میری تیار کردہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت متعلقہ بنچ کے فاضل ججوں کی اقامت گاہوں تک پہنچائی گئی۔ اس منصوبہ بندی کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور اس ٹیپ کی بنیاد پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر نے ملک میں کھلبلی پیدا کردی۔ چنانچہ جسٹس راشد عزیز کو جو اس وقت سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر فائز ہوچکے تھے‘ مستعفی ہونا پڑا۔ ہمارے اس مشن کی اصل تکمیل اس وقت ہوئی جب کوٹیکنا کیس کا فیصلہ صادر کرنیوالے لاہور ہائیکورٹ کے جج ملک محمد قیوم بھی اپنے منصب سے فارغ ہوئے اور سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کیخلاف صادر کردہ ان کا فیصلہ غیرقانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔ اس طرح میری‘ میرے سٹاف اور ساتھیوں کی محنت رنگ لائی۔ اس فیصلہ کی بنیاد پر ہی محترمہ بے نظیر بھٹو سیاست میں واپس آئیں اور انکے وکیل سردار لطیف کھوسہ لندن آکر محترمہ بے نظیر بھٹو اور انکی فیملی کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔ اس وقت آصف علی زرداری پاکستان میں جیل میں تھے جن کی عدم موجودگی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے بچوں بلاول‘ بختاور اور آصفہ کی سیاسی تربیت کی۔ اس طرح بھٹو خاندان نے بحالیٔ جمہوریت کی جدوجہد میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہیں ہونے دیا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کو ٹف ٹائم دینے کی بھرپور سیاسی حکمت عملی طے کی۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی کی راہ روکنے کی جنرل مشرف کی ہرکوشش ناکام بنا دی۔ محترمہ تمام خطرات اور سکیورٹی کی خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 18 اکتوبر 2007ء کو دوبئی سے کراچی پہنچیںجبکہ ان کے بچے دوبئی میں ہی رہے۔ کراچی ایئرپورٹ پر استقبال کیلئے عوام کا جم غفیر موجود تھا۔ عوام کے اتنے بڑے اجتماع نے محترمہ کے حوصلوں کو مزید بڑھا دیا۔ سرزمین وطن پر قدم رکھتے ہی انہوں نے مزار قائد پر حاضری دی اور عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کیا۔ اگرچہ دوبئی میں پارٹی کے ایک اجلاس میں شہید محترمہ کی اطمینان بخش سکیورٹی کا فیصلہ ہوا اور اس ضمن میں پارٹی کے سینئر ارکان پرمشتمل خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی تھی تاہم کیبنٹ ڈویژن کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق بحیثیت سابق وزیراعظم شہید محترمہ کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری حکومت کی قرار دی گئی اور اس حوالے سے یہ ذمہ داری ایس ایس پی میجر (ر) امتیاز حسین کو سونپ دی گئی۔ اس طرح محترمہ کی زندگی کی حفاظت سمیت تمام تقریبات اور جلسوں کے تحفظ کی ذمہ داری مجھ سمیت پی پی پی کے لیڈروں سے مکمل طور پر حکومت کو منتقل ہو گئی۔ پارٹی نے 18 اکتوبر کو ایک بہت بڑے جلوس کا اہتمام کیا۔ جس کی سکیورٹی کیلئے پولیس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے ’’جانثاروں‘‘ کو بھی متعین کیا گیا۔ تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود کار ساز کراچی کے قریب محترمہ کے آرمرڈ ٹرک کے پاس جس پر وہ سوار تھیں یکے بعد دیگر دو طاقتور دھماکے ہوئے جس میں پیپلزپارٹی کے 149 کارکن جاں بحق اور 402 زخمی ہوئے۔ اس خوفناک حملے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں تھا۔ جلوس کے دوران ہی دھماکوں سے پہلے بھی قاتلانہ حملہ کی کوشش کی گئی۔ ایک بچے کو دھماکہ خیز مواد میں لپیٹ کر محترمہ کے قریب پہنچایا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس لڑکے کے ہاتھ محترمہ کے ہاتھوں تک نہ پہنچ سکے۔ ٹرک میں محترمہ کے ہمراہ میرے علاوہ‘ راجہ پرویز اشرف‘ اعتزاز احسن‘ کرسٹینا لیمب اور بہت سے دوسرے عہدیدار بھی موجود تھے جو اس حملے کی زد میں آئے تھے۔ میرے بال جھلس گئے اور راجہ پرویز اشرف کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ اگرچہ ہم بچ گئے لیکن کئی قیمتی کارکن داغ مفارقت دے گئے جنہوں نے اپنی محبوب لیڈر کی حفاظت کیلئے انسانی ڈھال بنائی ہوئی تھی۔ محترمہ نے اس سانحہ کی شکایت درج کرانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے کیس رجسٹر کرنے سے انکار کردیا۔ پھر جن دہشت گردوں پر شبہ تھا انہیں کمزور شہادت کے باعث چھوڑ دیا گیا۔ محترمہ نے اپنی انتخابی مہم بدستور قومی جوش و جذبے کے ساتھ جاری رکھی اور لاکھوں کے اجتماعات سے خطاب جاری رہا۔ 26 دسمبر کو ہم نے پشاور میں بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے 27 دسمبر کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ قبل ازیں وزارت داخلہ کی طرف سے دہشت گردی کے خطرے کی بار بار وارننگ جاری کی گئی لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی کے اداروں نے انہیں سنجیدگی سے نہ لیا اور فول پروف سکیورٹی کے انتظامات نہ ہو سکے۔ محترمہ کامیاب جلسہ کے بعد جلسہ گاہ سے نکل رہی تھیں کہ خود کش حملہ ہو گیا۔ یہ کوئی لاینحل سوال نہیں کہ انہیں کس نے قتل کیا‘ کس نے سازش کی‘ کون تھے وہ جنہوں نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا اورکون تھے وہ جنہوں نے سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ پولیس نے حکومت کی ہدایت کے تحت جائے حادثہ کو وقوعہ کے 80 منٹ کے بعد ہی صاف کردیا۔ یوں مضبوط شہادت تلف کر دی گئی۔ محترمہ کی شہادت کے ساتھ ہی پاکستانی سیاست کا سنہرا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔ لیکن ان کے سیاسی ورثہ کو کوئی موت نہ دے سکا۔
بے شک 27 دسمبر کا سورج ہر سال طلوع ہوتا رہے گا‘ زندگی اسی طرح رواں دواں رہے گی مگر بلاول‘ بختاور‘ آصفہ اور سابق صدر آصف علی زرداری اور ہم کارکن اپنی لیڈر کو اب کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ آج بلاول اپنی اور اس سے وابستہ یادوں کا ذکر کرتا ہے تو اسکی آنکھوں میں بے اختیار چھلکنے والے آنسو شہید محترمہ کی ملک و قوم کیلئے بے پایاں خدمات اور انکی سیاسی جدوجہد کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔
(ترجمہ: سعید آسی)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024