بے نظیر بھٹو آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں جہاں انہیں آکسفورڈ یونین کی پہلی ایشیائی خاتون صدر منتخب کیا گیا۔ ابھی انہوں نے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان پر مارشل لاء مسلط کرکے ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں گرفتار کرلیا چنانچہ بینظیر بھٹو کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکستان واپس آنا پڑا تاکہ وہ اپنے عظیم باپ کے خلاف قتل کے مقدمے کے سلسلے میں وکلا کی معاونت کر سکیں۔ بھٹو صاحب نے موت کی کوٹھری سے بے نظیر کی سالگرہ پر"مائی ڈئریسٹ ڈاٹر" کے عنوان سے ایک جذباتی خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ بیٹی میں تو موت کی کوٹھری سے اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا تو میں تمہیں کیا گفٹ دے سکتا ہوں۔ میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ آخرت کی جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے اور دنیا کی جنت عوام کے قدموں کے نیچے ہے۔ بھٹو صاحب کا اپنی بیٹی کیلئے یہ گفٹ انکی زندگی کا بہترین گفٹ ثابت ہوا۔ مشکل گھڑی میں پی پی پی کے اکثر بڑے لیڈر بھٹو صاحب کا ساتھ چھوڑ گئے۔ اس وقت بینظیر بھٹو نے اپنی عظیم والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر جرأت اور دلیری کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا مقابلہ کیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جنرل ضیاء الحق کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد پی پی پی کا خاتمہ ہو جائے گا مگر بے نظیر نے آمر کا یہ منصوبہ خاک میں ملا دیا۔
بے نظیر بھٹو سے میری پہلی ملاقات فلیش مین ہوٹل راولپنڈی میں ہوئی جب میں کوٹ لکھپت جیل سے ایک سال قید اور دس کوڑوں کی سزا مکمل کرنے کے بعد ان سے ملاقات کیلئے پہنچا۔ بے نظیر نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب میرے بارے میں بہت اچھے خیالات اور رائے رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بے نظیر کو خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کا اعتراف پاکستان کے عوام نے کر لیا اور بے نظیر بھٹو پاکستان کے عوام کی لیڈر بن گئیں۔ 1986ء میں جب وہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں تو زندہ دلان لاہور نے ان کا ایسا شاندار یادگار اور پُرجوش استقبال کیا کہ تاریخ میں کبھی کسی لیڈر کا ایسا استقبال نہیں ہوا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے بڑے عزم حوصلے اور جوش کے ساتھ پارٹی کی قیادت کی۔ انکی شب و روز کی محنت رنگ لائی اور انہوں نے 1988ء کے انتخابات میں مسلمان ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
بینظیر بھٹو وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے والد کے مقدس مشن کی تکمیل کیلئے جدوجہد کرتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے قومی مفادات کا مکمل طور پر دفاع کیا اور پاکستان کے دفاع کو ایٹمی میزائل سے مسلح کیا۔ اپنی پہلی حکومت کے دوران انہوں نے خاص طور پر پاکستان کے نوجوانوں اور خواتین کو مقتدر بنانے کی سنجیدہ کوشش کی۔ لاکھوں انتہائی غریب خاندانوں کو بینظیر انکم سپورٹ سکیم کے تحت ماہانہ وظیفہ دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کی باقیات نے انکے اقتدار کو برداشت نہ کیا اور بیس ماہ کے بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے ہمت نہ ہاری اور سیاسی جدوجہد جاری رکھی وہ بے مثال قیادت اور مسلسل جدوجہد کی وجہ سے 1993ء کے انتخابات میں ایک بار پھر پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے عزم جوش اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی خدمت کی۔ افسوسناک طور پر انکے شوہر آصف علی زرداری کا اثر و رسوخ حکومت میں غیر معمولی حد تک بڑھ گیا۔ ان کیخلاف کرپشن کے الزامات سامنے آنے لگے اور ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔بے نظیر بھٹو نے طویل جلاوطنی بھی کاٹی اور لندن اور دبئی سے پی پی پی کی رہنمائی کرتی رہیں اور سیاست کے میدان میں پی پی پی کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا بھی بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ جنرل مشرف کے دور میں جب 2008ء کے انتخابات کرائے گئے تو بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ ان کو طالبان کی طرف سے قتل کرنے کی کھلی دھمکیاں دی جارہی تھیں مگر بے نظیر بھٹو کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کی سمت کو درست کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان واپس آئیں اور انتخابات میں حصہ لیں۔ پاکستان واپسی پر کراچی میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا خودکش دھماکے میں 250 غریب کارکن شہید ہو گئے-
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ء کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر کے زرداری ہائوس اسلام آباد واپس جا رہی تھیں۔ ان پر خودکش حملہ کیا گیا جب ان کو ایمرجنسی میں ہسپتال پہنچایا گیا تو ڈاکٹروں نے ان کی جان بچانے کی پوری کوشش کی مگر وہ زخموں سے جانبر نہ ہوسکیں۔ ریکارڈ پر ایسی درجنوں مستند شہادتیں موجود ہیں کہ بینظیر بھٹو کو سازش کرکے قتل کیا گیا جس میں اندرونی بیرونی کردار شامل تھے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پی پی پی اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ قیادت کے اس خلاء کوآصف علی زرداری نے پر کیا جسکے بعد ایک قومی جماعت صوبہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بھٹو کی سیاست کا تیس سالہ سفر پاکستان کی سیاست کا ہر حوالے سے یادگار باب ہے۔ بھٹو صاحب کی طرح بے نظیر بھٹو بھی عالمی سطح کی لیڈر تھیں۔ جن کی شہادت کے بعد پاکستان کی سیاست زوال پذیر ہوگئی اور آج تک ہمیں بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے سیاسی قد کا بڑا لیڈر میسر نہیں آ سکا۔ ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے اہل دیانتدار اور بااخلاق لیڈروں کی وجہ سے ہی ترقی کی ہے جبکہ پاکستان کو طویل عرصے سے قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کے اہل اور محب وطن لیڈروں کو برداشت نہیں کیا جاتا اور ان کو پاکستان کی خدمت کرنے اور اسے درست ٹریک پر چڑھانے کیلئے موقع ہی نہ دیا گیا۔ لیاقت علی خان حسین شہید سہروردی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سیاسی داستانیں المناک ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو اگر حکومت کرنے کا پورا موقع دیا جاتا تو یقین اور اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کافی حد تک اپنے مسائل پر قابو پا لیتا۔ بلاول بھٹو اپنی قیادت کو تسلیم کرانے کیلئے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ لیاقت باغ میں پی پی پی کا جلسہ پنجاب میں پی پی پی کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024