اعلیٰ تعلیم کی آرزو ہمیں امریکہ لے آئی۔ کوئی مزدوری کی غرض سے اور کوئی کاروبار یا تعلیم کی خاطر امریکہ چلا آتا ہے اور پھر امریکہ کمبل ہوجاتا ہے۔ کمبل کو چھوڑنا بھی چاہیں تو کمبل نہیں چھوڑتا۔ لیکن ہمارے شوہر صاحب نے ڈاکٹری کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرتے ہی کمبل اُتار پھینکا اور لاکھوں ڈالروں کی جاب کو شکریہ ادا کرتے ہوئے سعودی عرب ہجرت کر گئے۔ بس یہ ہجرت کی نیت اور سفر حرم کا ہی فیض ہے کہ پھر دنیا میں جہاں بھی گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم رہی۔ سعودی عرب سے پاکستان شفٹ ہو گئے۔ امریکہ سے کشتیاں جلا کر نکلے تھے مگر پروردگار کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ تعالی خود فرماتے ہیں کہ اے بندے تجھے کیا علم تمہاری موت کس سر زمین پر ہو گی۔شایدہماری مومنہ بیٹی کا سفر آخرہمیں واپس امریکہ لے آیا۔ مومنہ کی زمین امریکہ لکھی تھی۔ نیو یارک کی سر زمین میں ابدی نیند جا سوئی۔ اللہ کے راز و نیاز بندے کی عقل سے بالا ہیں۔وہ منظر آج بھی نظروں کے سامنے گردش کرتا ہے جب مومنہ بیٹی آخری عمرہ پر صحن کعبہ کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہچکیوں میں سورہ العصر کی تلاوت کرتی رہی اورہم ماں باپ سے سسکیوں میں کہتی رہی کہ ہم خسارے میں ہیں ،ہم خسارے میں ہیں ،وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔۔۔’’ مکہ مدینہ قیام کے دوران مومنہ بیٹی پر یہ کیفیات مسلسل طاری رہیں۔مومنہ تو سورہ العصر کی معرفت سمیٹ کر اپنے دائمی وطن لوٹ گئی مگرہم والدین کو جب بھی حرمین پاک آنا نصیب ہوتا ہے چار سو العصر کی بازگشت سنائی دیتی۔سوچتی ہوں کہ بندہ کس قدر نا شکرا ہے۔مسجد حرم بیت اللہ شریف میں داخل ہوتے دعا کی جاتی ہے (ترجمہ)
’’اے اللہ یہ تیرا اور تیرے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حرم ہے پس میرے گوشت، خون اور ہڈیوں کو آگ پر حرام کر دے۔ اے اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ۔ جس روز تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا اور مجھے اپنے ولیوں اور اطاعت گزاروں میں شامل کردے اور مجھ پر نظرِ کرم فرما۔ بے شک تو توبہ قبول کرنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے۔۔۔‘‘ ہم نے کبھی سوچا کہ یہاں ہماری خوبصورتی، مال و دولت اور جاہ و مقام کی کوئی قیمت نہیں ہے۔یہ نعمتیں خود اللہ تعالی ہی نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔ جو اللہ کو پسند ہے، وہ ہمارے ایمان اور اعمال کی خوبصورتی اوراخلاص جیسی نعمتیں ہیں۔کعبتہ اللہ اور روضہ رسول کو دیکھ لینا اس زندگی کی بڑی نعمتیں ہیں بشرطیکہ اس دیدار کی معرفت کا ادراک بھی ہو جائے۔نمازیوں کی نمازیں اس وقت تک قبول نہیں ہوں گی جب تک وہ اپنا رخ کعبہ کی طرف نہیں رکھیں گے۔ کعبہ تمام عبادتوں اور بندوں کی توجہات کا مرکز ہے۔ جانور ذبح کرتے ہوئے بھی اس کا منہ قبلہ کی جانب کرنا پڑتاہے۔ مردوں کو دفنانے سے پہلے بھی انہیں قبلہ رخ کیا جاتاہے۔ نیز وضو کرتے ہوئے مستحب ہے کہ منہ قبلہ کی طرف ہو۔
اللہ تعالیٰ کو اتحاد و اتفاق اور عبادت کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہونا پسند ہے۔ لاکھوں فرزندانِ توحید کعبہ کے اردگرد اکٹھے ہوکر اللہ کی عبادت کیا کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے ہیں۔ ان کا تعلق مختلف برادریوں، زبانوں، ثقافتوں، رنگوں اور پس منظر سے ہے، لیکن ایک دوسرے کو برداشت کرکے وہ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اللہ کو ایسا اتحاد پسند ہے۔اللہ سبحانہ و تعالی نے ایک خاص کشش کعبہ میں رکھی ہے۔ لاکھوںکروڑوں افراد یہ خواہش دل میں لیے رکھتے ہیں کہ انہیں باربار کعبہ کی زیارت نصیب ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنا سب کچھ خرچ کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔جب بھی کعبہ پر نگاہ پڑے دل سے یہی التجا نکلے کہ ہمارے رب ہمیں راضی بر رضا کر دے۔ اپنی کوئی مرضی رہے نہ چاہت اور نہ خواہش رہے۔ہماری والدہ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے اکثر دعا مانگا کرتی تھیں یا اللہ تو اپنی اور اپنے حبیب مصطفی کی محبت میرے جان مال اولاد کی محبت پر غالب کر دے۔۔۔
کس قدر عجیب منظر ہوتاہے جب تمام مسلمان کفن اوڑھے عرفات کے میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔ شاہ و گدا ایک ہی سادہ لباس میں خالی جیبوں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔اس پریکٹس کے باوجود دولت اکٹھی کرنے کی ہوس دم لینے نہیں دیتی۔ اللہ کے گھر کے سامنے بیٹھی کچھ کیفیات مادری زبان میں وارد ہونے لگیں۔وچ کعبے میر ارب وسدا تے رب وچ کل خدائی ،کعبہ ویکھ نہ رجاں میں و چھوڑا دیوے دوہائی، سر تے پنڈ گناہواں والی تے ہتھ وی میرے خالی،نہ میری کوئی جمع پونجی نہ میں کیتی کمائی ،کی کراں میں جاواں کتھے رب ورگا نہ ہور کوئی،رب نہیں چھڈدا رب نہیں رسدا رب نے نال نبھائی،رب رب کردی جھلی ہوئی تھاں تھاں لبھدی پھری،رب تیرے اندر وسدا اے رب نے گل سمجھائی۔۔۔مکہ مکرمہ کی شان تمام جہانوں میں افضل ہے۔البتہ مکہ کبھی بھی ملت اسلامیہ کا دارالخلافہ نہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہ مدینہ تھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلے کوفہ اور اس کے خاتمے کے بعد دمشق اور بعد ازاں بغداد منتقل ہو گیا۔
مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔
1926ء میں سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کو سعودی عرب میں شامل کر لیا۔اے اللہ تیرے سوہنے مکہ و مدینہ سلامت رہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024