پروفیسر راشدہ قریشی
ایسا تو ہر گز نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا راستہ روکا گیا ہو، پاکستان میں ہر طرز حکومت جیسا مارشل لاءسول اینڈ ڈیمو کریٹک وکنٹرولڈ ڈیمو کریٹک کا تجربہ ہوا ہے بلکہ اب تک ملک مختلف النوع حکومتوں کی تجربہ گاہ ہی بنا ہوا ہے۔ 62 سال کے طویل عرصے میں جمہوریت کی راہ ہموارکرتے کرتے کئی فوجی آمروں کے اقتدار قائم کئے گئے یا ہوئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ پہ کسی نے اسلام کے نام پر اور کسی نے جمہوریت کے نام پر خوب حکومت و اقتدار کے مزے لوٹے۔ سپریم کورٹ نے جب سے این آر او کو کالعدم قرار دیا ہے اور قانون کے لمبے ہاتھ چند اعلیٰ حضرات کی طرف بڑھے ہیں تو خطرہ جمہوریت کو لاحق ہو گیا، این آر او کے فیض یافتگان اعلیٰ حضرات کو نہیں گویا موجودہ جمہوری طرز حکومت جس کی بنیاد این آر او کے فیض یافتگان ہیں ہمارے ملک کی ”قَل“ جمہوریت ہیں اور 17 کروڑ عوامی رائے کہ ملک کو غاصبوں، لٹیروں سے نجات دلائی جائے غیر جمہوری سی آواز و رائے ہے۔ تقریباً دو سال کے حالیہ سلطانی جمہور کے دور میں سید پیرومرشد وزیراعظم صاحب کو جمہوری استحکام کے لئے دوڑ دھوپ کی ضرورت اس وقت پیش آ رہی ہے جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گیلانی صاحب کی جماعت و حکومت کے اعلیٰ حضرات عوام کی طرف سے استعفوں کے مطالبوں کے ہچکولوں کی زد میں آ گئے ہیں حالانکہ سلطانی جمہور کی ابتداءمیں میثاق جمہوریت یہ قائم رہنے سے جمہوری استحکام کی پاسداری ہو سکتی تھی۔ 2008ءکے اوائل ہی میں یعنی پی پی پی کی جمہوری حکومت قائم ہوتے ہی جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب اسی لئے عنان حکومت شاید اپنے ہاتھ لینے سے پیچھے رہے کہ چلو ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا مستحکم ہونے کا موقع دے دیا جائے وگرنہ مسلم لیگ ن جب مرکز میں حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوئی ن لیگ کے سینئر وفاقی وزراءنے وزارتوں سے استعفے دیئے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی وزارت عظمٰی کو گرایا گیا تو کیسی جمہوریت پیش خدمت تھی شاید گیلانی صاحب کو کیانی صاحب ہی بتا سکیں گے۔ صحافی بتائیں گے تو راجہ ریاض صاحب صحافیوں کے سیاسی ٹھیکیداری جمانے کے الزام میں ہاتھ توڑ دیں گے۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی صاحبان نے بھی ان اعلیٰ حکام کو اخلاقی ضابطوں کی یاد دہانی کرانے کی کوشش کی ہے تاہم عنان حکومت سنبھالے جمہوری متوالے معجزوں پہ یقین کرنے کو تیار نہیں۔ مخدوم گیلانی صاحب کو ملکی و غیر ملکی عدالتوں کو ملک کے غاصبوں کے خلاف مقدمات ری اوپن کرنے کی ہدایت جاری کرنا تھی تاہم خوش قسمتی سے این آر او کے بعد اب مذکورہ اعلیٰ حکام کو وزیراعظم صاحب کے حوالے سے انہیں جماعتی و حکومتی بنیاد پر اپنے تعلق دار پراسیکیوشن سے فیضیاب ہونے کا بھی موقع ملے گا اور اس طرح جمہوریت مزید مستحکم ہو گی۔ ن لیگ نے اپنے قائدین میاں نوازشریف، شہبازشریف کی قیادت میں سول سوسائٹی کے رہنماو¿ں اور وکلاءبرادری نے مشرف آمریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ایک خاموش انقلابی تحریک کامیابی سے ہمکنار کی تھی۔ آج اگر مشرف آمریت کی تمام ملک دشمن پالیسیوں اور عوامی پست حالی اقدامات کو اسی طرح برقرار رکھا جائے گا تو ایسی جمہوریت کا خواب تو اقبالؒ و قائدؒ نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہماری جمہوریت متقاضی ہے کہ تعمیری تنقید کرنے والے دبے اور ڈرے رہیں اور اپوزیشن بھی فرینڈلی اپوزیشن ہو تاکہ این آر او کے فیض یافتگان اور ملک کے جمہوری مالکان اپنا کام چلاتے رہیں۔ کون نہیں چاہتا کہ ملک میں حکومتی استحکام ہو اور کون حکومت کو اپنی معینہ مدت پوری کرنے کے راستے میں سیاسی طور پر مائل ہو رہا ہے؟ حکومتی استحکام و عوامی و قومی بہبود دو الگ چیزیں کیسے ہو گئیں؟ وزیراعظم صاحب اگر آپ ملک کے کرپٹ مافیا جس نے ملک کو کھا کھا کر کھوکھلا بھی کیا اور غیر ملکی عدالتوں و عالمی برادری میں ذلیل بھی کیا کہ مفادات کو تحفظ دینے کی کسی پالیسی کی تکمیل کر رہے ہیں تو عوامی آواز سن لیجیئے کہ....
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
این آر او کے فیض یافتگان کے مفادات کا تحفظ ہمارے ملک کی کلی و مجموعی ”جمہوریت“ نہیں سید پیر و مرشد سرکار گیلانی صاحب ۔ خدا بھول گئے ہیں ہم۔!
ایسا تو ہر گز نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا راستہ روکا گیا ہو، پاکستان میں ہر طرز حکومت جیسا مارشل لاءسول اینڈ ڈیمو کریٹک وکنٹرولڈ ڈیمو کریٹک کا تجربہ ہوا ہے بلکہ اب تک ملک مختلف النوع حکومتوں کی تجربہ گاہ ہی بنا ہوا ہے۔ 62 سال کے طویل عرصے میں جمہوریت کی راہ ہموارکرتے کرتے کئی فوجی آمروں کے اقتدار قائم کئے گئے یا ہوئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ پہ کسی نے اسلام کے نام پر اور کسی نے جمہوریت کے نام پر خوب حکومت و اقتدار کے مزے لوٹے۔ سپریم کورٹ نے جب سے این آر او کو کالعدم قرار دیا ہے اور قانون کے لمبے ہاتھ چند اعلیٰ حضرات کی طرف بڑھے ہیں تو خطرہ جمہوریت کو لاحق ہو گیا، این آر او کے فیض یافتگان اعلیٰ حضرات کو نہیں گویا موجودہ جمہوری طرز حکومت جس کی بنیاد این آر او کے فیض یافتگان ہیں ہمارے ملک کی ”قَل“ جمہوریت ہیں اور 17 کروڑ عوامی رائے کہ ملک کو غاصبوں، لٹیروں سے نجات دلائی جائے غیر جمہوری سی آواز و رائے ہے۔ تقریباً دو سال کے حالیہ سلطانی جمہور کے دور میں سید پیرومرشد وزیراعظم صاحب کو جمہوری استحکام کے لئے دوڑ دھوپ کی ضرورت اس وقت پیش آ رہی ہے جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گیلانی صاحب کی جماعت و حکومت کے اعلیٰ حضرات عوام کی طرف سے استعفوں کے مطالبوں کے ہچکولوں کی زد میں آ گئے ہیں حالانکہ سلطانی جمہور کی ابتداءمیں میثاق جمہوریت یہ قائم رہنے سے جمہوری استحکام کی پاسداری ہو سکتی تھی۔ 2008ءکے اوائل ہی میں یعنی پی پی پی کی جمہوری حکومت قائم ہوتے ہی جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب اسی لئے عنان حکومت شاید اپنے ہاتھ لینے سے پیچھے رہے کہ چلو ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا مستحکم ہونے کا موقع دے دیا جائے وگرنہ مسلم لیگ ن جب مرکز میں حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوئی ن لیگ کے سینئر وفاقی وزراءنے وزارتوں سے استعفے دیئے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی وزارت عظمٰی کو گرایا گیا تو کیسی جمہوریت پیش خدمت تھی شاید گیلانی صاحب کو کیانی صاحب ہی بتا سکیں گے۔ صحافی بتائیں گے تو راجہ ریاض صاحب صحافیوں کے سیاسی ٹھیکیداری جمانے کے الزام میں ہاتھ توڑ دیں گے۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی صاحبان نے بھی ان اعلیٰ حکام کو اخلاقی ضابطوں کی یاد دہانی کرانے کی کوشش کی ہے تاہم عنان حکومت سنبھالے جمہوری متوالے معجزوں پہ یقین کرنے کو تیار نہیں۔ مخدوم گیلانی صاحب کو ملکی و غیر ملکی عدالتوں کو ملک کے غاصبوں کے خلاف مقدمات ری اوپن کرنے کی ہدایت جاری کرنا تھی تاہم خوش قسمتی سے این آر او کے بعد اب مذکورہ اعلیٰ حکام کو وزیراعظم صاحب کے حوالے سے انہیں جماعتی و حکومتی بنیاد پر اپنے تعلق دار پراسیکیوشن سے فیضیاب ہونے کا بھی موقع ملے گا اور اس طرح جمہوریت مزید مستحکم ہو گی۔ ن لیگ نے اپنے قائدین میاں نوازشریف، شہبازشریف کی قیادت میں سول سوسائٹی کے رہنماو¿ں اور وکلاءبرادری نے مشرف آمریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ایک خاموش انقلابی تحریک کامیابی سے ہمکنار کی تھی۔ آج اگر مشرف آمریت کی تمام ملک دشمن پالیسیوں اور عوامی پست حالی اقدامات کو اسی طرح برقرار رکھا جائے گا تو ایسی جمہوریت کا خواب تو اقبالؒ و قائدؒ نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہماری جمہوریت متقاضی ہے کہ تعمیری تنقید کرنے والے دبے اور ڈرے رہیں اور اپوزیشن بھی فرینڈلی اپوزیشن ہو تاکہ این آر او کے فیض یافتگان اور ملک کے جمہوری مالکان اپنا کام چلاتے رہیں۔ کون نہیں چاہتا کہ ملک میں حکومتی استحکام ہو اور کون حکومت کو اپنی معینہ مدت پوری کرنے کے راستے میں سیاسی طور پر مائل ہو رہا ہے؟ حکومتی استحکام و عوامی و قومی بہبود دو الگ چیزیں کیسے ہو گئیں؟ وزیراعظم صاحب اگر آپ ملک کے کرپٹ مافیا جس نے ملک کو کھا کھا کر کھوکھلا بھی کیا اور غیر ملکی عدالتوں و عالمی برادری میں ذلیل بھی کیا کہ مفادات کو تحفظ دینے کی کسی پالیسی کی تکمیل کر رہے ہیں تو عوامی آواز سن لیجیئے کہ....
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
این آر او کے فیض یافتگان کے مفادات کا تحفظ ہمارے ملک کی کلی و مجموعی ”جمہوریت“ نہیں سید پیر و مرشد سرکار گیلانی صاحب ۔ خدا بھول گئے ہیں ہم۔!