لاہور (لیڈی رپورٹر) مختلف اداروں کی طرف سے ہر سال سکولوں، کالجوںاور یونیورسٹیوں سے ہزاروں خون کی بوتلیں لینے اور بعدازاں سکینیگ کے دوران تقریبا 30فیصد نمونوں پر ہیپا ٹایٹس، منشیات، اور دیگر بیماریوں کی رپورٹ پازیٹو آنے کے بعد خون کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ان طلبہ وطالبات کو نہیں بتایا جاتا ہے جس سے بعض تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کے ایک گورنمنٹ گرلز کالج سے حاصل کردہ 450 بوتلوں میں سے 120 خون کی بوتلوں کے ٹیسٹ خراب آئے۔ جن میں ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریاں سمیت منشیات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس ادارے نے یہ خون کی بوتلیں ضائع کر دی تاہم اس کالج کی بچیوں کا آگاہ نہیں کیا گیا۔ ہلال احمر پنجاب کو رواں سال طلبا و طالبات نے تقریباً دو ہزار خون کے بیگ عطیات کئے۔ ہلال احمر کے قائم مقام سیکرٹری ڈاکٹر عدنان نے بتایا کہ وقت کی کمی کے باعث خون لینے سے قبل ٹیسٹ نہیں کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی سٹوڈنٹ کو بیماری ہو تو سرٹیفیکٹ پر آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔ اس حوالے سے کالج کے ذرائع نے بتایا ہے کہ کالج میں بلڈ کیمپ تو لگایا گیا تھا لیکن صرف بچوں کو بلڈ کارڈز دیئے جاتے ہیں جبکہ آج تک بعد میں کسی بچے کے بارے میں میڈیکل سرٹیفیکٹ نہیں ملے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024