1۔ مشہور فرانسیسی مفکر روسُو نے کہا تھا۔ ’’ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر ہر طرف زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔‘‘ یہ زنجیریں جبرواستبدار کی ہیں۔ یہ زنجیریں ظلم اور زیادتی کی ہیں، ناروا پابندیوں کی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جذبہ جہانگیری نے بستیوںکو تاراج کیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ معصوم لوگ تہ تیغ ہوئے ہیں۔ چشم عبرت نے کھوپڑیوں کے مینار بنتے دیکھے ہیں۔الغرض آدمی کا شیطان آدمی رہا ہے۔2۔ برّصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ اُن کا پالا دو شیطانوں سے پڑا تھا۔ ایک جو اپنی ایمپائر کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بڑی حیرت اور حسرت سے تک رہا تھا اور دوسرا ہزار برس کی غلامی کا حساب چکانے کیلئے سازشوں کے جال بن رہا تھا۔ انگریز مسلمانوں سے بوجوہ مخاصمت رکھتا تھا ایک تو اس نے اقتداران سے ہتھیایا تھا اور دوسرا 1857ء کی جنگ آزادی بھی بنیادی طور پر انہوں نے لڑی تھی۔ ہندوئوں نے ہمیشہ بغل میں چُھری رکھی۔ رام رام کی رٹ کو اب خیرباد کہنے کا وقت آ گیا تھا۔ مسلمانوں کے زوال کے اسباب کیا تھے؟ دراصل جب سلاطین شمشیر و سناں کو نیام میں ڈال دیں اور ’’ایں دفترے بے معنی غرقِ مے ناب اولیٰ‘‘ کا ورد کرنے لگیں تو پھر ذلت اور شکست ان قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔
3۔اورنگ زیب کے بعد کوئی بیدار مغز حکمران نہ آیا۔ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہوتا گیا۔ بہادر شاہ ظفر نے تو لُٹبا ہی ڈبو دی۔ امورِسلطنت پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے شعروشاعری کا رسیا ہو گیا۔ اپنے ٹیڑھے میٹرھے اشعار کی اصلاح ذوق اور غالب سے کرواتا رہا اور بزعم خود اپنے آپکو بڑا شاعر سمجھنے لگا۔ انگریزوں نے اُسے عمر قید کی سزا دیکر رنگون بھیج دیا۔ ’’اُجڑے دیار‘‘ میں ہی وفات پائی ۔4۔ کیسے برطانیہ کے ’’مچھیروں‘‘ نے آدھی دنیا فتح کر ڈالی ، یہ تاریخ کا بہت بڑا سبق ہے اور مذاق بھی! پُھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ اُن کی پالیسی کا جزولاینفک تھا۔ اس میں وہ خاصے کامیاب رہے۔
دوسری جنگ عظیم نے اُن کی طاقت پر کاری ضرب لگائی، گو بعداز خرابیِ بسیار وہ فاتح رہے مگر اندر سے کھوکھلے ہو گئے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انڈین نیشنل کانگرس متحد ملک چاہتی تھی لیکن خوش قسمتی سے مسلمانوں کو محمد علی جناحؒ کی صورت میں ایک ایسا لیڈر مل گیا جو عزم و ہمت، راستی اور دیانت کا استعارہ تھا۔ شروع ہی سے قائد نے ہندو ذہن کو ٹھیک طرح سے پڑھ لیا تھا۔ یہ ایک ایسی جمہوریت کے خواہاں تھے۔ جس کا ہر راستہ مسلمانوں کی غلامی پر مُنتج ہوتا تھا۔ قائد نے کہا:
’’گاندھی کہتا ہے کہ ہمیں ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہئے، اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمیں گائے کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہئے‘‘ ان سادہ الفاظ میں ایک دریائے معانی پنہاں ہے، دو مذاہب کا فلسفہ حیات اور انداز فِکر نظر آتا ہے۔ آج کے نام نہاد سیکولر ہندوستان میں ہزاروں مسلمان گائو ہتیا کے ’’جُرم‘‘ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے جو لوگوں کو جینے کا حق بھی نہیں دیتا۔ مسلمان لحم خنزیر حرام سمجھتے ہیں لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا رونما نہیں ہوا جس میں عیسائیوں کو تنگ کیا گیا ہو!
5۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے ایک الگ ملک کا تقاضہ کیا اور ہندو انگریز گٹھ جوڑ کے باوصف پاکستان بنایا لیکن اس کیلئے بڑی قربانیاں دیں۔ ایک قلزمُ خوں تھا جسے عبور کر کے ہم آزادی کی منزل تک پہنچے۔ سید مشکور حُسین یاد ایک نامور ادیب تھے۔ اُن کا پورا کُنبہ اُنکی آنکھوں کے سامنے ہندو اور سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں شہید ہوا۔ وہ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ اُنہوں نے ’’آزادی کے چراغ‘‘ کے نام سے آپ بیتی لکھی، طویل عمر پائی لیکن آخری دم تک درد کی لہر اُنکے چہرے سے مترشح ہوتی رہی۔ اس کالم کا عنوان اُسی کتاب سے لیا گیا ہے۔
6۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان بننا تھا، سو بن گیا! لیکن کیا وہ مقاصد جن کیلئے ان گنت لوگ سربریدہ ہوئے پُورے ہو گئے ہیں؟ یہ ایک تکلیف دہ سوال ہے جس کا جواب بہرحال ہمیں دینا ہے۔ آج شُہدا کی روحیں جب اس ملک کا طواف کرتی ہونگی۔ اگر وہ خوش ہیں تو ہمیں بھی خوش ہونا چاہئے۔بالفرض وہ مضطرب اور مُضمحل ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہئے، کہیں ہم سے کوئی بھول تو نہیں ہو گئی؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ہم بہت بڑی غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ معمار قوم سے زندگی نے وفا نہ کی اور وہ آزادی کے بعد ایک سال کے قلیل عرصے میں خالق حقیقی سے جا ملے۔اسکے بعد ہرچہ بادا باد ہو گیا۔ کُچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ ہمیں مُلک نہیں ملا ایک پنیر کا ٹکڑا عالمِ غیب سے آن گرا ہے جس پر کوّے، کتے اور چیلیں جھپٹ رہی ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو گیا۔ جعل ساز طالع آزما کُھل کھیلنے لگے۔ اقتدار کے حصول کیلئے ’’میوزیکل چیئرز‘‘ کا کھیل شروع ہو گیا ۔وزیراعظم لیاقت علی خان کو پنڈی کے کمپنی باغ میں بھرے مجمعے میں گولی مار دی گئی۔ یہ کام پنجاب کے وڈیروں اور پولیس کی ملی بھگت سے ہوا۔ وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ آئی جی پولیس خان قربان علی خان کو انکل کہتا تھا۔ غلام محمد گورنر جنرل کو سکندر مرزا نے چلتا کیا۔ صدر سکندر مرزا کو جرنیلوں نے تھپڑوں اور ’’ٹھڈوں‘‘ کے ساتھ لندن روانہ کیا۔ ایوب خان کو کتا، کتا کہہ کر اقتدار چھوڑنے پر مُجبور کیا گیا۔ یحییٰ خان نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔ ملک دولخت ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت کو ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر ختم کر دیا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ضیاء الحق بھی مکافات عمل کا شکار ہو گیا۔ بہاولپور سے اس کا جہاز اُڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے گولے میں تبدیل ہو گیا۔ اسکے بعد جو نام نہاد جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے تو حد ہی کر دی۔ نااہل تو تھیں ہی ’’کرپشن کو آرٹ کے زمرے سے نکال کر سائینس بنا دیا۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے سیاست بھی کی تو انتقام کی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ محترمہ بے نظیر کو سزا دلوانے کیلئے میاں شہبازشریف نے جسٹس قیوم کو فون کیا، گفتگو ریکارڈ کر لی گئی۔ جسٹس قیوم کو استعفیٰ دینا پڑا مگر میاں صاحب ہنوز دندنا رہے ہیں۔’’دھیلے کی کرپشن ثابت کر دیں تو سیاست چھوڑ دونگا، پتہ نہیں یہ لوگ کرپشن کس چیز کو سمجھتے ہیں؟ انصاف کو خریدنا، اُس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ، انکے نزدیک کرپشن نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ سپریم کورٹ پر حملہ کس نے کروایا تھا۔ پنجاب ہائوس سے کون ہدایات جاری کر رہا تھا۔ نزلہ گرا بھی تو عضوِ ضعیف پر، پارٹی ورکر میاں منیر اور طارق عزیز موردِ الزام ٹھہرے۔ سزا بُھگت کر جب یہ جیل سے باہر نکلے تو دنیا ہی بدل چُکی تھی۔ انہیں (ن) لیگ سے بہ یک بینی و دوگوش پارٹی سے نکال دیا گیا۔ استدلال بڑا دلچسپ تھا۔’’پارٹی میں سزا یافتہ مجرموں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ یہ کلمات سُن کر وہ ہنسے ،روئے تھے یا بیک وقت دونوں کیفیتوں سے گزرے ہونگے۔ ؎مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے! 5۔ اب تک بہت سا پانی پُلوں کے نیچے سے گزر چُکا ہے۔ محترمہ دہشتگردی کا شکار ہو چکی ہیں۔ میاں صاحب معزول ہو کر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف پر بھی دورِ ابتلا ہے۔ مقدمات کی بھرمار ہے۔یاایں ہمہ دلِ ناتواں مقابلہ خوب کر رہا ہے…
عمران خان ایک طویل جدوجہد کے بعد پاکستان کا وزیراعظم بن گیا ہے۔ مصائب کا کوہِ گراں ہے۔ مسائل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جس میں ساری قوم گھری ہوئی نظر آ رہی ہے… اتہام اور الزام تراشیوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ حکومت کا موقف ہے کہ سابقہ حکومت نے دیدہ دانستہ جو کانٹے اسکی راہ میں بکھیرے ہیں، انہیں پلکوں سے چُننا پڑ رہا ہے۔ موجودہ معیشت کی زبوں حالی کی بڑی وجہ سابق حکومت کے اللّے تللّے ہیں۔ مہنگائی کا طوفان بھی اِسی وجہ سے آیا ہے۔ سابق حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اگر دس برس تک قیمتیں ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھیں تو اب کونسا طوفان آ گیا ہے۔ ہر دو آرا میں کچھ نہ کچھ وزن ضرور ہے۔ خان صاحب کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ محضِ ایمان دار ہونے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اُوپر کی سطح پر یقیناً کرپشن کم ہوئی ہے مگر لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان چاہئے، وہ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں نہیں پڑنا چاہتے۔ لوگوں کی یاداشت کمزور ہوتی ہے ایک سال کے بعد وہ ماضی کو فراموش کر کے صرف حال کو دیکھتے ہیں۔ بھوکا شخص تین سال تک انتظار نہیں کر سکتا۔ اُس کے لئے تقویمِ وقت صبح سے شروع ہو کر شام کو ختم ہو جاتی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024