ضمنی انتخابات کا معرکہ برپا ہونے کو ہے پہلی بار شاید بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اپنے اپنے ممالک سے اپنے آبائی حلقوں میں ووٹ ڈال سکیں گے۔الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات 2018 کا شیڈول جاری کر دیا ہے، ملک بھر میں ضمنی انتخابات 14 اکتوبر کو ہوں گے۔وزیراعظم عمران خان پر ایک بھاری قرض ہے۔ یہ قرض 70 برس سے ہر حکمران پر تھا۔ اس کو چکانے کی سعادت جناب عمران کے حصے میں لکھ دی گئی تھی لیکن اب یہ ذمہ داری انقلابی ایجنڈے اور نشان منزل طے کرنے والے کپتان خان کے سر ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے خواب کو پاکستان کا نام دینے والے چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان واپس لانے کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا۔ چوہدری رحمت علی نے یورپ میں تحریک پاکستان کی نشوونما کی’اس کی بنیاد رکھی۔پاکستان کا مقدمہ لندن کے ایوانوں میں پوری شان اور جرا¿ت سے لڑتے رہے۔ عمران خان کو چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی وطن عزیز لاکر اسلام آباد میں دفن کرنے پر قائل کرنے والابھی ایک قابل فخرفرزند چودھری اشرف گوجر تھا۔ اس نے اپنے لئے کچھ نہ مانگا جو روایتی سیاست کا جزو اعظم ہوتا ہے۔
پاکستان کی عزت کے لئے، نیک نامی کے لئے، فرمانبردار، غیرت مند اور وفاشعار بیٹے کے طور پرچودھری رحمت علی کا جسد خاکی لندن سے واپس لا نے کے لئے اس نے جھولی پھیلائی۔ 25 جولائی کے انتخابات میں وفاقی دارالحکومت کے تین حلقوں میں تحریک انصاف اورعمران خان کا پرچم تھامے گلی گلی، کوچہ کوچہ، ووٹ کے لئے چادر پھیلائے ہمہ وقت سرگرم عمل و سرگرداں رہا۔پیشہ وکالت سے وابستہ اشرف گوجر دیسی رکھ رکھاﺅ رکھنے والے پاکستان اور اس کی علامات سے پرخلوص اور والہانہ لگاﺅ رکھتے ہیں۔چوہدری رحمت علی کیمبرج کے عیسائی قبرستان میں بطور امانت دفن ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کی دعوت پر 8جولائی2018 ءکو کنونشن سنٹرمیں چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی وطن لا کر قومی اعزاز کے ساتھ اسلام آباد میں دفن کرنے کا اعلان کیاتھا۔پاکستان کی منظم اور متحرک گوجر برادری قوم کے سامنے بڑے فخر سے اپنے دو نامور سپوتوں کا ذکر کرتی رہی ہے۔ پنجابی عقل و دانش کی لازوال علامت قرار پانے والے صوفی شاعر میاں محمد بخش اور ان کے صوفیانہ کلام سیف الملوک کو تو ایسی آفاقی حیثیت حاصل ہو گئی ہے کہ ذات برادریوں کے تمام رشتے ناطے اور بندھن ٹوٹ گئے ہیں اور سیف الملوک کو پنجاب کا مشترکہ ورثہ قرار دے دیا گیا ہے، جبکہ چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو واپس لانے کے لئے گزشتہ 70 برسوں سے مختلف ادوار میں کوششیں کی جاتی رہیں جو بوجوہ بارآور ثابت نہ ہو سکیںوہی اشرف گوجر ضمنی انتخاب میں عمران خان کی خالی کردہ این اے53 اسلام آباد کی نشست پر امیدوار ہیں۔ عمران خان کی فتح میں ان کا کلیدی کردار رہااب وہ عمران خان کے وعدوں کی تکمیل میں ایک مخلص اور انتھک سپاہی کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ہوس اقتدار اور حصول اقتدار کی ریشہ دوانیاں بڑے بڑوں کو ہضم کرجاتی ہیں۔ حالات و واقعات کے رخ پر چلنے والے ابن الوقتی کے تمغے سینے پر سجائے پھرتے ہیں۔ ایسے میں مخلص اور نظریاتی وفادار ساتھی سب سے بڑی قوت بن کر سامنے آتے ہیں۔
گزشتہ عام انتخابات میں وہ اسلام آباد میں انتخابی مہم کے ہراول دستے میں تھے۔ اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں جناب عمران خان، اسد عمر اور راجہ خرم نواز کے شانہ بشانہ سرگرم اور متحرک رہے بلکہ ان کی دھاڑ لاہور کی انتخابی مہم میں بھی شیرانوالا گیٹ تک سنائی دیتی رہی۔ جس میں سارے لاہور سے تمام قومی اور صوبائی حلقوں سے ان کی برادری کے عمائدین نے شرکت کی۔ اشرف گوجر نے مری سے شاہد خاقان عباسی کی نام نہاد درویشی کے چوغے کو تار تار کرکے بے نقاب کرکے رکھ دیا۔ ارب پتی سابق وزیراعظم کے مقابل ایک غریب استاد پروفیسر صداقت علی عباسی کی کامیابی کی راہیں ہموار اور کشادہ کردیں۔پاکستان بھر کی سب سے بڑی اور تعداد کے لحاظ سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر کی اکثریتی برادری نے اجتماعی طور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔یورپ اورمشرق وسطیٰ میں لاکھوں کی تعداد میں آباد اوورسیز بھی جذبہ تبدیلی سے سرشار ووٹ ڈالنے پاکستان آئے۔نون لیگ کے میڈیا ونگ نے وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے کچھ حصوں کو سیاق و سباق سے الگ کر کے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ وار خالی گیا۔
اجتماعی طور پرایسی ہر کوشش کی مذمت کی اوراپنے سپوت اشرف گجر کی قیادت پر اعتماد کیا۔ اسلام آباد کے تمام حلقوں میں(Grass root level) پر روابط سے انہوں نے سیاسی پانسہ ہی پلٹ کررکھ دیا وہ اسد عمر کی کامیابی کی راہیں ہموار اور کشادہ کرتے گئے۔اس حلقے کا پس منظر کچھ یوں ہے 2013 ءکے ضمنی انتخاب میں اشرف گوجر کو بادل نخواستہ ٹکٹ تو دے دیا گیا لیکن بزرگ رہنما راجہ ظفر الحق،سمیت ساری مسلم لیگی قیادت اپنے ہی امیدوار کے خلاف کمربستہ ہوگئی۔یہ بھی عجب الیکشن تھا کہ انتخابی حریف تو اسد عمر تھے لیکن اشرف گوجر مسلم لیگ ن کے لینڈ مافیا، قبضہ گروپوں ، پراپرٹی مافیا اور ان کے سرپرستوں کو للکارتے رہے کہ مسلم لیگ ن کا امیدوار ہونے کے باوجود ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے قبضہ گروپوں اور لینڈ مافیا کے ساتھ ہے۔
انتخاب سے قبل آخری ایک ماہ میں چار بار پارٹی ٹکٹ دینے اور واپس لینے کا کھیل جاری رہا۔ چوہدری اشرف گوجرکو انتخاب سے ایک ماہ قبل انتخابی مہم شروع کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ایک ہفتہ بعد ان سے ٹکٹ واپس لے کر حنیف عباسی کو امیدوار بنا دیا گیا۔ جب کام نہ بنا تو پھر چوہدری اشرف گوجر کو دوبارہ انتخابی مہم شروع کرنے کو کہا گیا مہم عروج پر پہنچی کہ حمزہ شہباز کی ایما پر انتخابی مہم ختم ہونے سے ٹھیک چھ دن پہلے ٹکٹ چھین کر انجم عقیل کو دے دیاگیا۔
اس ناروا حرکت پرہمہ جہت شدید ردعمل کے پیش نظر نصف شب کو پھر اشرف گوجر کو امیدوار بنا دیا گیا اس طرح ا±ن کی انتخابی مہم صرف پانچ دن پر محیط تھی۔ پانچ دن میں تو ایک گلی کا الیکشن بھی ممکن نہیں لیکن اس مرد میدان نے صرف پانچ دن میں انتخابی معرکہ اس بے جگری سے لڑا کہ لیگی رہنماﺅں، کارکنوں کی مخالفت کے باوجود 42ہزار ووٹ لئے۔(جاری ہے)
دوسری قسط
اسلم خان
اشرف گوجر حقیقی معنوں میں فرزند اسلام آباد ہیں۔ یہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اشرف گوجر نے تعلیم اسلام آباد میں ہی مکمل کی۔ وہ سرکاری کوارٹروں اور کرائے کے گھروں میں رہتے رہے ہیں اور 26 سال سے پیشہ وکالت سے منسلک ہیں۔محنت کشوں‘ تمام مزدور تنظیموں ‘ اخباری کارکنوں اور سرکاری ملازمین کی ایسو سی ایشنوں کے اللہ واسطے مفت وکیل رہ چکے ہیں۔ اسلام آباد کی تمام تاجر تنظیموں اور تاجر راہنماﺅں کے علاوہ تمام مسالک اور مذہبی قائدین سے ذاتی قریبی مراسم رکھتے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے بانی صدر اور اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ بار کے سابق صدر ہونے کے ناطے وکلا کا انہیں مکمل اعتماد حاصل ہے۔ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے رابطے میں رہتے ہیں ضرورت مندوں اور بے بس لاچاروں کے لئے ان کے دروازے 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں مسیحی برادری بڑی سیاسی قوت ہے جو چوہدری اشرف سے خصوصی رشتہ استوار کئے ہوئے ہے۔
حکمران جماعت کی بھر پور مخالفت کے باوجود 2011ءمیں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے پہلے اور بانی صدر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز انہیں حاصل ہوا۔ انہوں نے ملکی آئینی اداروں کے علاوہ فرانس، ترکی اور ملائشیا کی بار ایسوسی ایشنوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی بمباری سے24 فوجی افسران اور جوان شہید ہوئے تو انہوں نے ضلع کچہری سے ڈپلومیٹک انکلیو تک اسلام آباد کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی کی قیادت کی۔ پیرس بار ایسو سی ایشن اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے درمیان باہمی تعاون کے پاکستان کی تاریخ کے پہلے بین الاقوامی معاہدے کا سہرا بھی ان کے سرہے۔
پاکستان الیکڑانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے رکن کی حیثیت سے چیئرمین ابصار عالم کی نواز شریف کی خوشامد کے لئے بھارت نواز پالیسیوں سے شدید اختلاف کرنے والا چوہدری اشرف گوجر ہی تھا۔ جب ایک وفاقی وزیر کے اشارے پر سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری اطلاعات ، چیئرمین ایف بی آر کے ووٹوں کیوجہ سے پاکستان مخالف فیصلے ہو رہے تھے تو وہ مستعفی ہوگئے۔ان کے پیمرا سے استعفی کی کہانی بھی بڑی انوکھی اور حیران کن ہے صدر پاکستان نے جب تین ماہ تک استعفی منظور نہ کیا توانہوں نے وزیراعظم کو خط لکھ کر کہا کہ صدر پاکستان سے ان کا استعفی منظور کرایا جائے۔وہ پہلے ممبر پیمرا تھے جنہوں نے پیمرا سے کسی بھی قسم کا اعزازیہ یاتنخواہ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
حکومت نے انہیں عملدرآمدٹریبونل برائے اخباری ملازمین(ITNE) کا چیئرمین بنانا چاہا، جو مراعات اور پروٹوکول کے لحاظ سے سپریم کورٹ کے جج کے مساوی تھا۔ سیکریٹری وزارت اطلاعات نے ا±نکی تقرری کیلئے سمری وزیراعظم کو ارسال کردی لیکن مسلم لیگ ن کی پالیسیوں سے نالاں ہونےکی وجہ سے انہوں نے یہ منصب سنبھالنے سے معذرت کرلی۔انہیں وزیراعظم عدالتی اصلاحات کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا جبکہ پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور وفاقی سیکریٹری قانون و انصاف جسٹس رضا کو ا±ن کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔
انہوں نے پاکستانی عوام کو جلد، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے نہایت جامع اور عملی نوعیت کی سفارشات مرتب کرکے وزیراعظم کو پیش کیں۔ کئی بار وزیراعظم کو بریفنگ کا وقت طے ہوا لیکن اس نہایت اہم معاملہ کیلئے وقت نہ نکال سکے۔عدالتی اصلاحات کے ان کے کام کی اہمیت اور سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت± کے چئیرمین سینٹ رضا ربانی کی دعوت پر انہوں نے سینیٹرز کو بریفنگ دی اور ان کی داد سمیٹی۔ عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے ان کے خلوص اور عرق ریزی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تین ماہ تک موصوف وکالت چھوڑ کر وزارت قانون میں بیٹھتے رہے اور اس دوران ایک روپیہ بھی کسی بھی مد میں وزارت سے وصول کرنا گناہ تصور کیا۔
اشرف گوجر کو خود نوازشریف نے 2011 میں بذات خود مسلم لیگ ن میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ وہ مسلم لیگ ن کی منشورمرتب کرنے والی کمیٹی برائے قانون اور سینٹرل کور کمیٹی میں بھی رہے مسلم لیگ ن کی لیبر پالیسی مرتب کی۔ نون لیگ نے زعم ِتکبر میں سب کچھ ضائع کردیا۔ عمران خان کیا کریں گے غلطیاں دہرائیں گے جن کی گنجائش نہیں ہے!