ایک زمانے میں شہنشاہ ایران کا طوطی بولتا تھا‘ پورے مڈل ایسٹ میں دھاک تھی ۔ اس زمانے میں مغربی میڈیا رضا شاہ پہلوی کے گن گاتے ہوئے نہ تھکتا تھا۔
صحافت کے طلبہ اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے اس زمانے کا لیا ہوا ڈیوڈ فراسٹ کا رضا شاہ پہلوی سے آخری انٹرویو بہت اہمیت رکھتا ہے اور عصر حاضر میں بھی اس انٹرویو کی اہمیت کم نہیں ہے۔ ڈیوڈ فراسٹ نے رضا شاہ سے پوچھا ’’آپ یکایک ہیرو سے زیرو کیسے بنے؟ تو رضا شاہ نے دریا کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا ’’جو میڈیا ایک روز پہلے تک میری تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ انہوں نے یکایک مجھے بدترین آمر اور ظالم ترین انسان قرار دے دیا۔ میں ابھی اس تبدیلی پر حیران ہی ہو رہا تھا کہ تہران ’’مرگ بر شاہ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے زوال میں میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔‘‘
صدر احمدی نژاد کی حکومت نے اس انٹرویو سے بہت کچھ سیکھا اور جب معمول کے مطابق مغربی پریس نے ایرانی صدارتی انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنانے کی زوردار مہم شروع کی تو ایرانی قیادت نے گربہ کشتن روز اول کے مصداق پہلے دن ہی مغربی پریس کے نمائندوں کو ایران چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ صحافیوں کے بھیس میں بہت سے غیر صحافی بھی ایران میں خلفشار پیدا کرنے کیلئے گھس آئے تھے۔
مغربی پریس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ ایرانی صدارتی انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنا کر ایران میں انتشار پیدا کریں لیکن ایران کی اعلیٰ قیادت نے تدبر کا ثبوت دیا جس کے نتیجہ میں ایران افراتفری سے بچ گیا اور تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے ایرانی انقلاب کے ایک اہم کمانڈر نے مطالبہ کر دیا کہ صدارتی انتخابات کے جن تین ناکام امیدواروں نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کیا ہے ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے اور سزا دی جائے۔ یقینی بات ہے کہ مقدمہ تو قائم نہیں ہو گا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ایران میں سیاسی طور پر مکمل سکون ہو گیا ہے اور صدر احمدی نژاد ایک مرتبہ پھر عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا حیران ہے کہ اس کا تیر صحیح نشانے پر کیوں نہیں بیٹھا۔
صحافت کے طلبہ اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے اس زمانے کا لیا ہوا ڈیوڈ فراسٹ کا رضا شاہ پہلوی سے آخری انٹرویو بہت اہمیت رکھتا ہے اور عصر حاضر میں بھی اس انٹرویو کی اہمیت کم نہیں ہے۔ ڈیوڈ فراسٹ نے رضا شاہ سے پوچھا ’’آپ یکایک ہیرو سے زیرو کیسے بنے؟ تو رضا شاہ نے دریا کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا ’’جو میڈیا ایک روز پہلے تک میری تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ انہوں نے یکایک مجھے بدترین آمر اور ظالم ترین انسان قرار دے دیا۔ میں ابھی اس تبدیلی پر حیران ہی ہو رہا تھا کہ تہران ’’مرگ بر شاہ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے زوال میں میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا۔‘‘
صدر احمدی نژاد کی حکومت نے اس انٹرویو سے بہت کچھ سیکھا اور جب معمول کے مطابق مغربی پریس نے ایرانی صدارتی انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنانے کی زوردار مہم شروع کی تو ایرانی قیادت نے گربہ کشتن روز اول کے مصداق پہلے دن ہی مغربی پریس کے نمائندوں کو ایران چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ صحافیوں کے بھیس میں بہت سے غیر صحافی بھی ایران میں خلفشار پیدا کرنے کیلئے گھس آئے تھے۔
مغربی پریس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ ایرانی صدارتی انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنا کر ایران میں انتشار پیدا کریں لیکن ایران کی اعلیٰ قیادت نے تدبر کا ثبوت دیا جس کے نتیجہ میں ایران افراتفری سے بچ گیا اور تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے ایرانی انقلاب کے ایک اہم کمانڈر نے مطالبہ کر دیا کہ صدارتی انتخابات کے جن تین ناکام امیدواروں نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کیا ہے ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے اور سزا دی جائے۔ یقینی بات ہے کہ مقدمہ تو قائم نہیں ہو گا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ایران میں سیاسی طور پر مکمل سکون ہو گیا ہے اور صدر احمدی نژاد ایک مرتبہ پھر عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا حیران ہے کہ اس کا تیر صحیح نشانے پر کیوں نہیں بیٹھا۔