پاکستان نے کہا ہے‘ عالمی برادری اعلان کردہ اربوں ڈالر دے۔ حکومت کو ڈونرز سے امداد کے ٹائم ٹیبل کے حصول میں ناکامی ہوئی۔
یہ شاید گداگری کا آخری درجہ ہے کہ پاکستان نے کھلے عام اعلان کرکے امداد مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کو کہتے ہیں : ’’امداد مرکب‘‘ جیسے ’’سود مرکب‘‘ ہوتی ہے۔
اس امریکی جنگ جو ہم اپنے صحن میں لڑ رہے ہیں‘ ڈونرز سے مدد ملنے کا معاملہ مشکوک ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈونرز کو ہماری دیانت داری کا اچھی طرح علم ہے۔ امداد تو سبھی حاصل کرتے ہیں‘ مگر یوں چرنوں میں لیٹ کر کسی نے نہیں مانگی ہو گی۔
گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے موقع پر موجود رہیں کیونکہ غفلت میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لائق اکثر واقعات ضائع ہو جاتے ہیں۔
ملک میں لاکھوں کے قریب ڈونرز موجود ہیں‘ اگر حکمران اپنے آپ سے شروع کریں تو اتنی دولت واپس لائی جا سکتی ہے کہ سوات کے مہاجرین کو لقمہ تر مل سکتا ہے۔ جب تک یہ لقمے وصول کرنا چھوڑ نہیں دیتے‘ ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح جب تک ہم امریکہ کی بدمزا یاری سے توبہ نہیں کر تے‘ ہمارا کشکول ٹوٹے گا اور نہ ہی دوستی توڑ پہنچے گی۔ دنیا کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں‘ وہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کا کتنا نقصان ہوا اور ابھی مزید کتنا ہوگا۔ اس کا بھی حساب کتاب ذہین میں رکھنا چاہئے۔
٭…٭…٭…٭
بھارت نے کہا ہے ‘ حافظ سعید کیخلاف کارروائی پاکستان کیلئے امتحان ہے۔
پاکستان بہت سے امتحانات میں بیٹھتا رہا ہے مگر مسئلہ کشمیر کا حل سامنے نہیں آسکا۔ مقبوضہ کشمیر کے کشمیری بار بار کہہ چکے ہیں کہ انکی جدوجہد جہاد ہے‘ جو وہ کبھی ترک نہیں کریں گے۔
ادھر پاکستان میں یہ عالم ہے کہ کوئی کارروائی ایسی نہیں ہوتی‘ جو دل میں ٹھنڈ ڈال دے۔ بھارت کی طرف سے یہ بیان کھلی دلیل ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے گا اور وہ ہرگز مقبوضہ کشمیر کو آزادی نہیں دیگا۔
حافظ سعید ایک نیکو کار شخص ہیں اور ان کا ممبئی حملوں سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اپنی تنظیم کے ذریعے قوم کی نئی نسل کو مختلف شعبوں میں تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور جہاد کشمیر میں سرگرم ہیں جو متعصب ہندو بنیاء کو کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔
پاکستان آزاد خودمختار اسلامی جمہوریہ ہے‘ اپنے پہلو میں موجود کشمیری مسلمانوں کا یوں قتل عام کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ پاکستان کو آپریشنز میں الجھا دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب پاکستان کو کسی بھی سماجی یا دینی تنظیم کیلئے بھارت سے اجازت لینا ہوگی۔
٭…٭…٭…٭
ایک یورپین کمپنی نے ہوا سے چلنے والی گاڑی تیار کرلی۔
قدرت نے کائنات میں زندگی کا ساماں اتنا وافر رکھ دیا ہے کہ جوں جوں انسان جنگ و جدل کو چھوڑ کر ایجادات کی طرف رخ کرتا ہے‘ اسے قدرت نواز دیتی ہے۔ ایک ایسے عالم میں جب انسانیت کو پٹرول کے قحط کا سامنا ہے اور پاکستان میں اس کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر رکھا ہے کہ اگر کبھی آٹے میں نمک کے برابر کمی کی جائے تو بھی تیل کے نرخوں میں اضافہ ہی محسوس ہوتا ہے۔
ہوا سے چلنے والی گاڑی کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے اور اس کو درآمد کرکے نہ صرف حکمرانوں کو دی جائیں بلکہ مارکیٹ کو فراہم کرنی چاہئیں تاکہ اس سستی گاڑی سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکے۔ اگر یہ ہوا سے چلتی ہے تو چلتی ہی رہے گی کیونکہ قدرت کے کارخانے میں لوڈشیڈنگ کہاں؟ البتہ انتہائی حبس کے عالم میں اگر کوئی حکمران بیٹھ جائے توبھی گاڑی چلتی رہے گی‘ یہ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ ہمارے ہاں کوئی اقدام انتہائی سنگین حالات میں کیوں کیا جاتا ہے؟
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ گوریاں چٹیاں لڑکیاں گداگروں کے گروپ میں شامل ہو گئیں۔
یہ تو اچھا ہوا کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں زنجیروں میں جکڑ لیا جاتا ہے‘ مگر دوسری جانب انسانی شیاطین اب اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ بڑے شیطان ابلیس کو زنجیریں نہ بھی پہنائی جائیں‘ تب بھی شیطانی پروگرام چلتے رہتے ہیں۔
لاہور والے اب چوکنے ہو جائیں کیونکہ شام کے وقت گوری چٹی لڑکیاں عام مانگنے والیوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ بطور خاص رمضان المبارک میں شروع کیا گیا ہے۔ حکومت کو بھی اپنا چیک اینڈ بیلنس نظام چیک کرلینا چاہئے کیونکہ کشکول والے اس مشن کے مہاولی ہیں۔
انتظامیہ کو دیکھنا چاہئے کہ یہ نیا مظاہرہ گداگری کا کیا ہے‘ کس نے اس نئی گداگری کو ایجاد کیا ہے؟ گدا گری ایک ایسا پیشہ ہے کہ جب یہ بندے کو چپک جائے تو وہ گداگر اسے خود بھی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔
اسلام اتنا غیور دین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’السؤال ذلۃ ولوکان عن ابویہ‘‘
(مانگنا ذلت ہے‘ چاہے اپنے والدین ہی سے کیوں نہ ہو)
یہ شاید گداگری کا آخری درجہ ہے کہ پاکستان نے کھلے عام اعلان کرکے امداد مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کو کہتے ہیں : ’’امداد مرکب‘‘ جیسے ’’سود مرکب‘‘ ہوتی ہے۔
اس امریکی جنگ جو ہم اپنے صحن میں لڑ رہے ہیں‘ ڈونرز سے مدد ملنے کا معاملہ مشکوک ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈونرز کو ہماری دیانت داری کا اچھی طرح علم ہے۔ امداد تو سبھی حاصل کرتے ہیں‘ مگر یوں چرنوں میں لیٹ کر کسی نے نہیں مانگی ہو گی۔
گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے موقع پر موجود رہیں کیونکہ غفلت میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لائق اکثر واقعات ضائع ہو جاتے ہیں۔
ملک میں لاکھوں کے قریب ڈونرز موجود ہیں‘ اگر حکمران اپنے آپ سے شروع کریں تو اتنی دولت واپس لائی جا سکتی ہے کہ سوات کے مہاجرین کو لقمہ تر مل سکتا ہے۔ جب تک یہ لقمے وصول کرنا چھوڑ نہیں دیتے‘ ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح جب تک ہم امریکہ کی بدمزا یاری سے توبہ نہیں کر تے‘ ہمارا کشکول ٹوٹے گا اور نہ ہی دوستی توڑ پہنچے گی۔ دنیا کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں‘ وہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کا کتنا نقصان ہوا اور ابھی مزید کتنا ہوگا۔ اس کا بھی حساب کتاب ذہین میں رکھنا چاہئے۔
٭…٭…٭…٭
بھارت نے کہا ہے ‘ حافظ سعید کیخلاف کارروائی پاکستان کیلئے امتحان ہے۔
پاکستان بہت سے امتحانات میں بیٹھتا رہا ہے مگر مسئلہ کشمیر کا حل سامنے نہیں آسکا۔ مقبوضہ کشمیر کے کشمیری بار بار کہہ چکے ہیں کہ انکی جدوجہد جہاد ہے‘ جو وہ کبھی ترک نہیں کریں گے۔
ادھر پاکستان میں یہ عالم ہے کہ کوئی کارروائی ایسی نہیں ہوتی‘ جو دل میں ٹھنڈ ڈال دے۔ بھارت کی طرف سے یہ بیان کھلی دلیل ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے گا اور وہ ہرگز مقبوضہ کشمیر کو آزادی نہیں دیگا۔
حافظ سعید ایک نیکو کار شخص ہیں اور ان کا ممبئی حملوں سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اپنی تنظیم کے ذریعے قوم کی نئی نسل کو مختلف شعبوں میں تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور جہاد کشمیر میں سرگرم ہیں جو متعصب ہندو بنیاء کو کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔
پاکستان آزاد خودمختار اسلامی جمہوریہ ہے‘ اپنے پہلو میں موجود کشمیری مسلمانوں کا یوں قتل عام کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ پاکستان کو آپریشنز میں الجھا دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب پاکستان کو کسی بھی سماجی یا دینی تنظیم کیلئے بھارت سے اجازت لینا ہوگی۔
٭…٭…٭…٭
ایک یورپین کمپنی نے ہوا سے چلنے والی گاڑی تیار کرلی۔
قدرت نے کائنات میں زندگی کا ساماں اتنا وافر رکھ دیا ہے کہ جوں جوں انسان جنگ و جدل کو چھوڑ کر ایجادات کی طرف رخ کرتا ہے‘ اسے قدرت نواز دیتی ہے۔ ایک ایسے عالم میں جب انسانیت کو پٹرول کے قحط کا سامنا ہے اور پاکستان میں اس کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر رکھا ہے کہ اگر کبھی آٹے میں نمک کے برابر کمی کی جائے تو بھی تیل کے نرخوں میں اضافہ ہی محسوس ہوتا ہے۔
ہوا سے چلنے والی گاڑی کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے اور اس کو درآمد کرکے نہ صرف حکمرانوں کو دی جائیں بلکہ مارکیٹ کو فراہم کرنی چاہئیں تاکہ اس سستی گاڑی سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکے۔ اگر یہ ہوا سے چلتی ہے تو چلتی ہی رہے گی کیونکہ قدرت کے کارخانے میں لوڈشیڈنگ کہاں؟ البتہ انتہائی حبس کے عالم میں اگر کوئی حکمران بیٹھ جائے توبھی گاڑی چلتی رہے گی‘ یہ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ ہمارے ہاں کوئی اقدام انتہائی سنگین حالات میں کیوں کیا جاتا ہے؟
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ گوریاں چٹیاں لڑکیاں گداگروں کے گروپ میں شامل ہو گئیں۔
یہ تو اچھا ہوا کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں زنجیروں میں جکڑ لیا جاتا ہے‘ مگر دوسری جانب انسانی شیاطین اب اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ بڑے شیطان ابلیس کو زنجیریں نہ بھی پہنائی جائیں‘ تب بھی شیطانی پروگرام چلتے رہتے ہیں۔
لاہور والے اب چوکنے ہو جائیں کیونکہ شام کے وقت گوری چٹی لڑکیاں عام مانگنے والیوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ بطور خاص رمضان المبارک میں شروع کیا گیا ہے۔ حکومت کو بھی اپنا چیک اینڈ بیلنس نظام چیک کرلینا چاہئے کیونکہ کشکول والے اس مشن کے مہاولی ہیں۔
انتظامیہ کو دیکھنا چاہئے کہ یہ نیا مظاہرہ گداگری کا کیا ہے‘ کس نے اس نئی گداگری کو ایجاد کیا ہے؟ گدا گری ایک ایسا پیشہ ہے کہ جب یہ بندے کو چپک جائے تو وہ گداگر اسے خود بھی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔
اسلام اتنا غیور دین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’السؤال ذلۃ ولوکان عن ابویہ‘‘
(مانگنا ذلت ہے‘ چاہے اپنے والدین ہی سے کیوں نہ ہو)