سارہ شفیق ......
ملکی حالات کی تلخیوں نے پاکستانی قوم سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔ ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کی آئی سی سی ورلڈ چیمپئن شپ کے فائنل میں کامیابی نے وقتی طور پر ہی سہی‘ ہمارے رستے ہوئے زخموں پر ایک پھاہا ضرور رکھا ہے۔ یہ ایک بے ساختہ خوشی تھی جس نے پاکستان کے طول و عرض میں ایک ہلچل برپا کر دی۔ ہم بحیثیت قوم چونکہ نظم و ضبط سے محروم ہیں‘ اس لئے ہماری حماقتوں سے کرکٹ کے قومی ہیروز کا شایان شان استقبال نہ کیا جا سکا۔ کوئی پلان ہی وضع نہ کیا گیا تھا۔ کرکٹ ٹیم قسطوں میں واپس آئی۔ رات کو 2 بجے آمد کا وقت قطعی مناسب نہ تھا۔ پھر بھی شائقین دور دراز سے سفر کرکے لاہور ائرپورٹ پہنچے تو سیکورٹی کے بہانہ انہیں کھلاڑیوں سے ملنے ہی نہ دیا گیا۔ کرکٹ کے پلیئرز یا شائقین کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا تو کئی مواقع موجود تھے لیکن مبینہ جنگجوؤں کی تو ان سے کوئی دشمنی نہیں۔
اب ایک بڑی ساری دیگ میں سے چند چاول بطور نمونہ حاضر ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اپنے حلف کے دوسرے دن ہی سیکرٹریٹ میں لاتعداد کاروں کی موجودگی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور 750 فالتو کاروں کو نیلام کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ کاریں زیادہ پرانی نہ تھیں اور 2005ء کے بعد خرید کی گئی تھی۔ 10 مئی 2009ء کو تیس نئی کاریں جن کی قیمت 400 لاکھ سے زیادہ ہے‘ خریدنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ گڈ گورننس کو ایک طرف رکھیں۔ سوال یہ ہے کہ پہلا حکم درست تھا یا دوسرا؟
پاکستان میں اٹارنی جنرل کا ایک عہدہ ہے۔ ہمارے اٹارنی جنرل کا نام سردار عبداللطیف کھوسہ ہے۔ لفظ سردار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وڈیرہ خاندان سے تعلق ہے۔ 22 گریڈ کی ملازمت ہے اور وفاقی وزیر کے برابر تمام بے شمار مراعات کے حقدار ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے ایک ادارہ او جی ڈی سی کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کیلئے خطیر رقم بطور فیس وصول کی ہے۔
پاکستان میں تو سب کچھ جائز ہے‘ البتہ میرا سوال بیرسٹر اعتزاز احسن سے ہے۔ کیا کسی مہذب ملک میں اس قسم کی روایت موجود ہے؟ آج سے قریباً نو سال پہلے مرکزی حکومت نے A.E.D.B کے نام سے ایک بورڈ قائم کیا تھا۔ جسے یہ فریضہ سونپا گیا تھا کہ بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع تلاش کرے۔ پاکستانی قوم شکرانے کے نوافل پڑھے کہ آخرکار اس بورڈ نے ترکی کی ایک کمپنی کی مدد سے چھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا ہوائی پلانٹ لگا دیا۔
سوال یہ ہے کہ افسران اور سٹاف کی اس بے مثال کارکردگی پر کتنے ارب روپے خرچ ہوئے؟ پنجابی زبان کی ایک مثل کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’اندھی آٹا پیسے اور کتے کھائیں‘‘ 2004-05ء کی آڈٹ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ سرحد حکومت کے مختلف محکموں نے اپنے حصہ کی رقم سال کے آخر تک خرچ ہی نہیں کی۔ یہ رقم 596.753 ملین روپیہ بنتی ہے۔ فنڈز کی کمی کا رونا حکومتیں کیوں روتی ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ خراب کارکردگی ہے یا بچت کی سکیم؟
سابق صدر پرویز مشرف کے ایک کزن پروفیسر ہارون اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) کے مشیر کے عہدہ پر کام کرتے رہے ہیں۔ تنخواہ کی مد میں انہیں اب تک 88589 پاؤنڈز کی ادائیگی کی گئی ہے۔ (ایک پاؤنڈ 135 روپے کے برابر ہے) شرائط کیمطابق انگلینڈ میں قیام کے دوران انہیں چار ہزار اور پاکستان میں2½ ہزار پاؤنڈز ماہانہ تنخواہ دی جانی تھی۔ وہ ایک دن بھی پاکستان نہیں آئے۔ سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار پاؤنڈز ماہانہ کا نقصان کرنے کیلئے انگلینڈ کا خوبصورت موسم کس طرح قربان کیا جا سکتا ہے؟
2007-08ء کے دوران پاکستان میں اغوا برائے تاوان کے کل 1059 واقعات ہوئے۔ اسی دوران غیر ممنوعہ بور کے 178754 (ایک لاکھ اٹھہتر ہزار سات سو چون) اسلحہ کے لائسنس جاری کئے گئے۔ سوال صرف اس قدر ہے کہ ممنوعہ بور کے کتنے لائسنس جاری کئے گئے؟
18 فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی نے ایک سال کے دوران صرف چار بل پاس کئے۔ ان میں سے دو بلوں کا آغاز سینیٹ سے ہوا تھا۔ بقیہ دو بلوں میں سے ایک منی بل (بجٹ) تھا۔ جمہوریت زندہ باد سوال محترمہ سپیکر صاحبہ سے ہے کہ ایک سال میں ممبران کو کس قدر مشاہرہ اداکیا گیا؟
25 اگست 2008ء کو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ میرپور خاص میں ایک تیرہ سالہ بچہ دو کلو گرام آٹا چراتے ہوئے پکڑا گیا‘ جس پر پولیس نے تشدد کیا اور جیل بھجوا دیا۔
اسی روز کے اخبارات میں اس سے ملتی جلتی ایک دوسری خبر بھی موجود تھی جو قومی رہنماؤں کے علاج پر اخراجات کے حوالہ سے ہے۔ جن کی ادائیگی قومی خزانہ سے کی گئی۔ (فہرست تو بہت طویل ہے صرف نمونہ حاضر ہے)
جناب فاروق لغاری سوا کروڑ روپے‘ کنور خالد یونس ایک کروڑ تیس لاکھ‘ مظہر قریشی ایم این اے کا بیٹا ستر لاکھ‘ ڈاکٹر شیر افگن بتیس لاکھ‘ ڈپٹی چیف آف پروٹوکول چھپن ہزار ڈالرز اور ایک ریلوے آفیسر ساٹھ ہزار ڈالرز‘ پہلا سوال یہ ہے کہ اتنے شدید بیمار رہنماؤں کی موجودگی میں قوم کیسے صحت مند ہو سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دو کلو آٹا تو چوری بن گیا‘ کروڑوں کی ڈکیتی کو کیا نام دیا جائے؟
حرف آخر یہ کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کیخلاف ریفرنس میں وسیم سجاد کو 82 لاکھ‘ ملک قیوم کو 82 لاکھ‘ ڈاکٹر خالد رانجھا کو 42 لاکھ اور احمد رضا قصوری کو 10 لاکھ روپے فیس ادا کی گئی۔ سوال صرف یہ ہے کہ کہاں سے ادا کی گئی؟ انا للہ وانا الیہ راجعون قرآن کریم کی یہ آیت غالباً پاکستانی قومی کیلئے اتاری گئی تھی۔
بہلا نہ دل‘ نہ تیرگی شام غم گئی
یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں
ملکی حالات کی تلخیوں نے پاکستانی قوم سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔ ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کی آئی سی سی ورلڈ چیمپئن شپ کے فائنل میں کامیابی نے وقتی طور پر ہی سہی‘ ہمارے رستے ہوئے زخموں پر ایک پھاہا ضرور رکھا ہے۔ یہ ایک بے ساختہ خوشی تھی جس نے پاکستان کے طول و عرض میں ایک ہلچل برپا کر دی۔ ہم بحیثیت قوم چونکہ نظم و ضبط سے محروم ہیں‘ اس لئے ہماری حماقتوں سے کرکٹ کے قومی ہیروز کا شایان شان استقبال نہ کیا جا سکا۔ کوئی پلان ہی وضع نہ کیا گیا تھا۔ کرکٹ ٹیم قسطوں میں واپس آئی۔ رات کو 2 بجے آمد کا وقت قطعی مناسب نہ تھا۔ پھر بھی شائقین دور دراز سے سفر کرکے لاہور ائرپورٹ پہنچے تو سیکورٹی کے بہانہ انہیں کھلاڑیوں سے ملنے ہی نہ دیا گیا۔ کرکٹ کے پلیئرز یا شائقین کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا تو کئی مواقع موجود تھے لیکن مبینہ جنگجوؤں کی تو ان سے کوئی دشمنی نہیں۔
اب ایک بڑی ساری دیگ میں سے چند چاول بطور نمونہ حاضر ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اپنے حلف کے دوسرے دن ہی سیکرٹریٹ میں لاتعداد کاروں کی موجودگی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور 750 فالتو کاروں کو نیلام کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ کاریں زیادہ پرانی نہ تھیں اور 2005ء کے بعد خرید کی گئی تھی۔ 10 مئی 2009ء کو تیس نئی کاریں جن کی قیمت 400 لاکھ سے زیادہ ہے‘ خریدنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ گڈ گورننس کو ایک طرف رکھیں۔ سوال یہ ہے کہ پہلا حکم درست تھا یا دوسرا؟
پاکستان میں اٹارنی جنرل کا ایک عہدہ ہے۔ ہمارے اٹارنی جنرل کا نام سردار عبداللطیف کھوسہ ہے۔ لفظ سردار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وڈیرہ خاندان سے تعلق ہے۔ 22 گریڈ کی ملازمت ہے اور وفاقی وزیر کے برابر تمام بے شمار مراعات کے حقدار ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے ایک ادارہ او جی ڈی سی کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کیلئے خطیر رقم بطور فیس وصول کی ہے۔
پاکستان میں تو سب کچھ جائز ہے‘ البتہ میرا سوال بیرسٹر اعتزاز احسن سے ہے۔ کیا کسی مہذب ملک میں اس قسم کی روایت موجود ہے؟ آج سے قریباً نو سال پہلے مرکزی حکومت نے A.E.D.B کے نام سے ایک بورڈ قائم کیا تھا۔ جسے یہ فریضہ سونپا گیا تھا کہ بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع تلاش کرے۔ پاکستانی قوم شکرانے کے نوافل پڑھے کہ آخرکار اس بورڈ نے ترکی کی ایک کمپنی کی مدد سے چھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا ہوائی پلانٹ لگا دیا۔
سوال یہ ہے کہ افسران اور سٹاف کی اس بے مثال کارکردگی پر کتنے ارب روپے خرچ ہوئے؟ پنجابی زبان کی ایک مثل کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’اندھی آٹا پیسے اور کتے کھائیں‘‘ 2004-05ء کی آڈٹ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ سرحد حکومت کے مختلف محکموں نے اپنے حصہ کی رقم سال کے آخر تک خرچ ہی نہیں کی۔ یہ رقم 596.753 ملین روپیہ بنتی ہے۔ فنڈز کی کمی کا رونا حکومتیں کیوں روتی ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ خراب کارکردگی ہے یا بچت کی سکیم؟
سابق صدر پرویز مشرف کے ایک کزن پروفیسر ہارون اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) کے مشیر کے عہدہ پر کام کرتے رہے ہیں۔ تنخواہ کی مد میں انہیں اب تک 88589 پاؤنڈز کی ادائیگی کی گئی ہے۔ (ایک پاؤنڈ 135 روپے کے برابر ہے) شرائط کیمطابق انگلینڈ میں قیام کے دوران انہیں چار ہزار اور پاکستان میں2½ ہزار پاؤنڈز ماہانہ تنخواہ دی جانی تھی۔ وہ ایک دن بھی پاکستان نہیں آئے۔ سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار پاؤنڈز ماہانہ کا نقصان کرنے کیلئے انگلینڈ کا خوبصورت موسم کس طرح قربان کیا جا سکتا ہے؟
2007-08ء کے دوران پاکستان میں اغوا برائے تاوان کے کل 1059 واقعات ہوئے۔ اسی دوران غیر ممنوعہ بور کے 178754 (ایک لاکھ اٹھہتر ہزار سات سو چون) اسلحہ کے لائسنس جاری کئے گئے۔ سوال صرف اس قدر ہے کہ ممنوعہ بور کے کتنے لائسنس جاری کئے گئے؟
18 فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی نے ایک سال کے دوران صرف چار بل پاس کئے۔ ان میں سے دو بلوں کا آغاز سینیٹ سے ہوا تھا۔ بقیہ دو بلوں میں سے ایک منی بل (بجٹ) تھا۔ جمہوریت زندہ باد سوال محترمہ سپیکر صاحبہ سے ہے کہ ایک سال میں ممبران کو کس قدر مشاہرہ اداکیا گیا؟
25 اگست 2008ء کو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ میرپور خاص میں ایک تیرہ سالہ بچہ دو کلو گرام آٹا چراتے ہوئے پکڑا گیا‘ جس پر پولیس نے تشدد کیا اور جیل بھجوا دیا۔
اسی روز کے اخبارات میں اس سے ملتی جلتی ایک دوسری خبر بھی موجود تھی جو قومی رہنماؤں کے علاج پر اخراجات کے حوالہ سے ہے۔ جن کی ادائیگی قومی خزانہ سے کی گئی۔ (فہرست تو بہت طویل ہے صرف نمونہ حاضر ہے)
جناب فاروق لغاری سوا کروڑ روپے‘ کنور خالد یونس ایک کروڑ تیس لاکھ‘ مظہر قریشی ایم این اے کا بیٹا ستر لاکھ‘ ڈاکٹر شیر افگن بتیس لاکھ‘ ڈپٹی چیف آف پروٹوکول چھپن ہزار ڈالرز اور ایک ریلوے آفیسر ساٹھ ہزار ڈالرز‘ پہلا سوال یہ ہے کہ اتنے شدید بیمار رہنماؤں کی موجودگی میں قوم کیسے صحت مند ہو سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دو کلو آٹا تو چوری بن گیا‘ کروڑوں کی ڈکیتی کو کیا نام دیا جائے؟
حرف آخر یہ کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کیخلاف ریفرنس میں وسیم سجاد کو 82 لاکھ‘ ملک قیوم کو 82 لاکھ‘ ڈاکٹر خالد رانجھا کو 42 لاکھ اور احمد رضا قصوری کو 10 لاکھ روپے فیس ادا کی گئی۔ سوال صرف یہ ہے کہ کہاں سے ادا کی گئی؟ انا للہ وانا الیہ راجعون قرآن کریم کی یہ آیت غالباً پاکستانی قومی کیلئے اتاری گئی تھی۔
بہلا نہ دل‘ نہ تیرگی شام غم گئی
یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں