اسلام آباد( نمائندہ خصوصی) ماہرین نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیچیدہ بحرانوں کے دوران انصاف کی فوری فراہمی کیلئے ثالثی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی عدالتی چارہ جوئی کے بجائے ثالثی کے ذریعے تنازعات کا حل مستقبل کا راستہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی پابند نہیں ، یہ ایک عالمی بحران ہے جو ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر شعبے کو متاثر کر رہا ہے۔پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ماحولیاتی خلا کو پاٹنا: ثالثی اور ماحولیاتی شعور پر مبنی وکالت کے موضوع پر منعقدہ گول میز مذاکرے میں ملکی و غیرملکی قانونی ماہرین اور جج صاحبان نے اس بات پر زور دیا کہ ماحولیاتی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے قانونی برادری کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جاوید حسن نے کلیدی خطاب میں پاکستان کے ماحولیاتی قانونی چارہ جوئی میں قائدانہ کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستانی عدالتوں نے ایسی قانونی روایت قائم کی ہے جسے عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ رومینہ خورشید عالم نے انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن اور ایس ڈی پی آئی جیسے اداروں کی ماحولیاتی تعلیم کے فروغ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنی قانونی عمل داری میں ماحولیاتی شعور پر مبنی مصالحت کو اپنانے کیلئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔تقریب کی نظامت بین الاقوامی بار کونسل کی بیرسٹر سارہ کاظمی نے کی ۔انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کی نمائندہ ایملی موریسن نے آسٹریلیا سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے عالمی وکلاء پر زور دیا کہ وہ آئندہ سی او پی 30 اجلاس سے قبل ماحولیاتی امور میں فعال شرکت کو یقینی بنائیں۔ پینل مباحثے میںڈاکٹر پلوشہ نے خیبرپختونخوا کی ماحولیاتی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہوئے ایک ہم آہنگ قومی ماحوتی ایکشن پلان کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ سابق وزیر قانون سندھ عمر سومرو نے پیچیدہ ماحولیاتی تنازعات میں مصالحت کو مرکزی دھارے میں لانے کیلئے قانون سازی میں اصلاحات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی پابند نہیں ، عالمی بحرا ن ہر شعبے کو متاثر کر رہا،ماہرین
Apr 27, 2025