لاہور میرا ہے ,لاہور تیرا ہے ،لاہور زندہ دلوں کا شہر ہی نہیں، باغوں کی خوبصورت پہچان رکھتا ہے،، جِنّے لہور نئیں تکیا اوہ جمیا ای نئیں،، نئیں ریساں شہر لہور دیاں،، لیکن حقیقت میں لاہور مملکت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا بڑا شہر ہی نہیں ،دارالحکومت بھی ہے۔ ادب و ثقافت ،صحافت اور سیاست کا بڑا مرکز۔ لہٰذااس شہر سے جب کبھی ادبی ،ثقافتی، صحافتی اور سیاسی تحریک چلی، وہی کامیاب ہوئی، ریاست کا واحد شہر جہاں ہر شام خوبصورت تھیٹر کی روایت ہمیشہ رہی، وہاں تھیٹر پر چھاپے اور ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی فیسٹول کا اہتمام کرنا پڑتا ہے ،پہلے ایسا نہیں تھا۔ میلہ چراغاں ہو کہ عرس مبارک حضرت داتا گنج بخش، ادب و ثقافت کے جلوے گلی محلے اور بازاروں میں دکھائی دیتے تھے ،اب لاہور اس قدر زمانے کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا کہ اس کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اس کا ماضی تلاش کرنے کے لیے کامران لاشاری کو دریافت کیا گیا پھر ان کی شب و روز محنت ،لاہوری محبت میں،، وال سٹی،، اپنے پرائے ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ لیکن ان کی خدمات کا صلہ ان کا استعفی بھی منظر عام پر آ چکا ہے ،یہ لاہور کبھی فلم نگر کے حوالے سے بھی جانا پہچانا جاتا تھا لیکن اب اس کا،،رائل پارک،، اداس ہے جہاں شام ہوتے ہی فلم سٹار دکھائی دیتے اور لاہوریوں کے چہرے کھل اٹھتے تھے، وہاں منشیات کے عادی نیلے پیلے چہرے گرتے پڑتے ملتے ہیں۔ فلم سٹوڈیو ویران، سینما گھروں کی جگہ پلازے بن چکے ہیں، اسٹوڈیو ورکرز بے روزگار ہوئے، بھوک اور بے سروسامانی نے انہیں انگلیوں پر نچایا لیکن ہدایت کار ،کہانی نویس، تدوین کار، نغمہ نگار سب فارغ، ماضی میں اچھے بھلے سرمایہ کار ان کی راہ تکتے تھے، حالات نے ایسی کروٹ لی کہ اب یہ ہنر مند ان لوگوں کی راہ تک رہے ہیں جو انہیں فی الحال نظر نہیں آ تے۔ دنیا ترقی کر چکی ہے فلم میکنگ میں بھی جدید تقاضوں کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن کام کوئی نہیں، اس شعبے سے وابستہ افراد کبھی ماضی کے جوہر قابل جو اب گنتی کے بچے ہیں، صبح نو کا انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ دنیا چھوڑ گئے اور کچھ واپسی کا ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے کنفرم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ لاہور بھٹو صاحب کے دور میں پیپلز پارٹی کا کہلایا، پھر جنرل ضیاء الحق کی آ مریت سے مسلم لیگیوں کا بن گیا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ایک سے زیادہ مرتبہ وزیراعلیٰ بنے تو ان کے نام اور ترقی و خوشحالی سے اس کی پہچان بنی۔ پھر کئی آ ئے، کئی گئے لیکن شہباز شریف نے وزیراعلی کا منصب سنبھالتے ہی ایسی ،،شہباز سپیڈ،، پکڑی کہ بلے بلے ہو گئی۔ ان کی دھوم ملکی سرحدیں بھی پار کر کے عوامی جمہوریہ چین تک پہنچ گئی۔ اس دوران گجرات کے چودھری پرویز الٰہی کو ایک مرتبہ وزارت اعلیٰ کی’’پگ‘‘ ملی۔ کام بھی کیے لیکن ایک عظیم وزیراعلیٰ کا انتخاب گھر میں بجلی نہ ہونے کے میرٹ پر کیا گیا ، انہوں نے جو کارنامے کیے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں البتہ وہ اپنے قائد اور پارٹی کی مشکلات میں ابھی تک پوشیدہ ہی ہیں، حمزہ شہباز شریف کو بھی اچانک منصب ملا لیکن جیسے ملا ویسے ہی اچانک چلا بھی گیا۔ ایسے میں پنجاب کے اقتدار کا ہما محسن نقوی کے سر پر آ ن بیٹھا۔ اس جنھگی جوان نے جنگی بنیادوں پر لاہور ہی نہیں، پنجاب میں اتنا کام کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ،،محسن سپیڈ ،،کی پرواز شہباز سے آ گے نکل گئی ہے۔ تاہم اب لمحہ موجود میں لاہور مریم نواز کا ہے۔
مخالفین کا دعوی تھا کہ نا تجربہ کاری میں مریم نواز بھی وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کی طرح مار کھا جائیں گی لیکن انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ میاں نواز شریف، چاچو شہباز شریف اور کزن شہباز شریف کے اقتدار کا وسیع مشاہدہ رکھتی ہیں بلکہ انہیں اپنے قائد کی ایسی سرپرستی حاصل ہے جو پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ یہی نہیں ان کے استاد محترم پرویز رشید جیسے ،،سکہ بند،، سیاستدان ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی صوبہ سرحد( کے. پی. کے) میں وزیراعلی نصراللہ خٹک کے مشیر ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد بھی مختلف اعلی عہدوں کے ساتھ ایوان بالا کے رکن، قید و بند اور جلا وطنی کی ’’لذت‘‘ سے بھی واقف ہیں۔ ان حالات میں مریم نواز اور ان کی ٹیم قابل رشک ہے جس میں پرانے اور نئے لوگوں کا حسین امتزاج ہے۔ لیکن اس میں تین خواتین کی تین کہانیاں انتہائی اہم ہیں۔ اللہ اس،، ٹرائکا ،،کو نظر بد سے محفوظ رکھے، مریم نواز ،مریم اورنگزیب اور عظمی بخاری ،جس انداز میں سرگرم عمل ہیں ماضی میں اس طرح کا ،،عورت راج،، ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ اول تو خواتین کو ایسی آزادانہ ذمہ داریاں کسی دور میں سونپی ہی نہیں گئیں، دوئم جن خواتین کو عہدے اور منصب دیے گئے انہوں نے صرف اپنی ذمہ داریاں بمشکل نبھائیں اور ایک قدم آ گے بڑھ کر کچھ نہیں کیا، وزیراعلی مریم نواز روزانہ کی بنیاد پر فلاح و بہبود کے نئے نئے منصوبے متعارف کرا رہی ہیں، انہیں پورے صوبے کی فکر لاحق ہے لیکن تجاوزات کے خلاف آپریشن نے لاہور کا ایک مرتبہ پھر اصلی خوبصورت چہرہ دکھا دیا۔ اس کامیابی پر وہ یقینا پھولے نہیں سما رہی ہوں گی اسی لیے وہ پورے پنجاب کو تجاوزات سے نجات دلانے کے لیے سرگرم ہو گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے نعرے ،،ستھرا پنجاب،، کی حقیقی تصویر دیکھنے کے لیے ویڈیو لنک اور سرکاری رپورٹس کا سہارا لینے کی بجائے شہر شہر سرپرائز وزٹ کا فیصلہ کیا۔ یقینا اس ،،سرپرائز وزٹ،، سے انہیں اپنی کارکردگی سے تقویت ملی ہوگی کیونکہ مختلف شہروں کے لوگ انہیں اپنے درمیان دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ انہوں نے حیرت زدہ لوگوں سے سوال و جواب بھی کیے اور ان کے مسائل بھی سنے۔ ایسا دفتر میں بیٹھ کر کبھی ممکن نہیں تھا۔ اس کارنامے پر مریم نواز بھی خوش اور عوام بھی راضی کہ ان کا کوئی پرسان حال موجود ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کو پورے صوبے کی ترقی و خوشحالی مطلوب ہے۔ انڈر پاسز، سڑکیں اور فلائی اوورز ،مزدور کسان ،صحت تعلیم و تجارت ہر شعبے کی اصلاحات اور اور ان کی نگرانی ایک اچھے منتظم کی ذمہ داری ہے پھر بھی لاہور صوبائی دارالحکومت اور صوبے کا ایک اہم ترین شہر ہے اس کے معاملات کی خصوصی نگہداشت بھی ضروری ہے۔
مریم نواز بطور وزیراعلی کم وقت میں زیادہ کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں، لہٰذاشہر لاہور کے تین بڑے مسائل فوقیت کے ساتھ حل ہونے چاہیئں۔ ادب و ثقافت ،سیاست و صحافت اس کی پہچان ہے، اسے ایرانی قوم اقبال لاہوری کے نام سے جانتی ، پہچانتی ہے۔ یہ داتا کی نگری، میاں میر صاحب کا مسکن اور یہاں میراں حسین زنجانی، پیر مکی شریف ،حضرت موج دریا ابدی نیند سو رہے ہیں۔ ان کے لاکھوں چاہنے والوں کا اس شہر میں ان کی نسبت سے آ نا جانا ہمیشہ ہی رہتا ہے، ایسے میں ناجائز تجاوزات کے خاتمے سے ٹریفک معاملات میں بہتری ضرور آئی ہے۔ ،،سپیڈو بس سروس،، بھی کار آ مد، میٹرو بس بھی تمام تر مخالفتوں کے عوامی خدمت انجام دے رہی ہے۔ اورنج ٹرین مہنگی ترین ہونے کے باوجود لوگوں کا بوجھ معمولی کرائے پر اٹھا کر راحت تقسیم کر رہی ہے۔ پھر بھی کمی اس بات کی ہے کہ بسوں میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر اس عوامی سہولت کو مختلف روٹس سے ایسے جوڑ دیا جائے کہ ،،سپیڈو بس،، جیسی سہولت کسی نہ کسی انداز میں ہر روٹ پر میسر آ جائے، تجاوزات ہٹائی گئی ہیں تو انکی دوبارہ کوشش کو بھی ناکام بنایا جائے، ریہڑی بانوں کی خوبصورت ریہڑیاں بھی شہر کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہیں لیکن ایسے میں جہاں برقی قمقموں میں شہر جگمگ کر رہا ہے وہاں ایک بڑی تعداد منشیات کے نشے میں گرتی پڑتی دکھائی دیتی ہے ،کیا وجوہات ہیں؟ نئی نسل کیوں منشیات کے جال میں پھنس گئی ہے؟ اس کی بھی فکر کی جائے۔ لیکن تجاوزات کی طرح اس حوالے سے بھی شہر کو پاک کیا جائے۔ قانون موجود, ادارے قائم ہیں لیکن منشیات کی فروخت اور منشیات کے عادی خوبصورت نہر کنارے, داتا صاحب کے ارگرد حاضر، رائل پارک اور ہر جگہ بآ سانی دیکھے جا سکتے ہیں، نئی نسل اور خاندانوں کو اجڑنے سے بچایا جائے ورنہ آ پ کے تمام تعلیمی اور صحت عامہ کے منصوبے کار آ مد ثابت نہیں ہو سکیں گے۔ تیسری بات یہ کہ بھکاریوں اور ان کے سرپرستوں سے دو دو ہاتھ کیے جائیں، بھیک کی آڑ میں ٹریفک سگنل پر ٹریفک معطل ،ناجائز دھندے اور قومی چہرہ داغدار ہو چکا ہے۔ ہمارے بھکاری تو اب عالمی سطح پر ہمیں بد نام کر چکے ہیں پھر ان سے رعایت کیسی؟ وزیراعلیٰ مریم نواز کے کارنامے اپنی جگہ، ان کے پرعزم ہونے کے ثبوت موجود ہیں لیکن’’لمحہ موجود‘‘کا تقاضہ ہے کہ تاریخی شہر لاہور کو مریم نواز اپنا شہر تسلیم کرتے ہوئے ایسا ماڈل شہر بنا دیں کہ اس دیے سے اور دیے بھی روشن ہو سکیں یعنی مریم کے شہر لاہور میں بسوں کی فراوانی ہو تاکہ دوسری گاڑیوں کی کمی سے آلودگی میں بھی واضح فرق ہو سکے اور لوگوں کے لیے آ سانیاں میسر ہو جائیں۔ بھکاریوں اور منشیات کے عادی افراد کے خاتمے سے زندہ دلوں کا شہر منفرد حیثیت حاصل کر کے ایک مرتبہ پھر ادب و ثقافت۔ سیاست و صحافت کا تاریخی شہر بن جائے۔
مریم نواز کا لاہور
Apr 27, 2025