عالمی بینک نے پاکستان کے ٹیکس نظام کو ’’ غیر منصفانہ اور بیہودہ ‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسے ناقابل برداشت کہا ہے ، یہ بات محض ایک اقتصادی ادارے کی تنقید نہیں بلکہ عام ہاکستانی شہری کی روزمرہ زندگی کا وہ سچ ہے ، جسے ہر دن محسوس کیا جاتا ہے ، عالمی بینک کی یہ رائے دراصل ایک بین الاقوامی مہر تصدیق ہے اس نظام پر جو امیروں کے لئے نرمی اور غریبوں کے لئے عذاب بن چکا ہے۔عام آدمی اپنی ہر سانس پر ٹیکس ادا کر رہا ہے ، اگر ایک عام شہری صبح گھر سے نکل کر شام تک صرف ضروریات زندگی کی اشیاءخریدے تو اسے ہر خریداری پر بالواسطہ ٹیکس دینا پڑتا ہے ، وہ چاہے ماچس کی ڈبیہ ہو ، یا آٹا ، چینی ، دال سب پر جنرل سیلزٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے ، اس کے علاوہ میڈیکل اسٹورز سے دوائی خریدنے ولا مریض بھی ٹیکس ادا کرتا ہے ، بچوں کی کتابیں یونیفارم اور اسکول فیس کے ساتھ منسلک اضافی چارجز بھی کئی اقسام کے ٹیکس کا روپ دھار چکے ہیں ، جو کہ ایک عام آدمی پر انتہائی غیر منصفانہ اور بیہودہ بوجھ ہیں۔بجلی کا بل ایک الگ کرب ہے ، جہاں بجلی کی اصل قیمت کے ساتھ ’’ فیول ایڈجسٹمنٹ ‘‘جی ایس ٹی ، انکم ٹیکس ، ٹی وی فیس اور متعدد فرضی چارجز شامل کئے ہوئے ہیں ، اکثر صارفین اصل یو نٹس کے بجائے ٹیکسوں کی بھر مار سے ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں ، کچھ خودکشیاں کر نے پر مجبور ہیں تو کئی گھرکے زیورات بیچ کر بل ادا کر رہے ہیں ، عالمی بینک نے جس نقطے پر زور دیا ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام رجعت پسند اور مراعات یافتہ طبقے کے مفاد میں ہے۔ بڑے جاگیردار ، سرمایہ دار،رئیل اسٹیٹ مافیا،اور سیاسی اشرافیہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہتے ہیں یا معمولی فائلنگ سے چھوٹ حاصل کر لیتے ہیں ، زراعت جیسے منافع بخش شعبہ میں 90 فیصد سے زائد افراد ٹیکس نہیں دیتے ، جب کہ شہری ملازمت پیشہ طبقہ باقاعدگی سے تنخواہوں سے کٹوتی کے ذریعے ٹیکس ادا کرتا ہے ، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کروڑوں روپے کی پراپرٹی کی خرید و فروخت ہوتی ہے ، مگر اصل مالیت چھپا کر معمولی ٹیکس دیا جاتا ہے۔
پاکستان کا ٹیکس نظام نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ بے حد پیچیدہ بھی ہے ، ایف بی آر کے نظام ریٹرن فائلنگ اور مختلف سطحوں پر ٹیکس نظام نے عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے خوفزدہ کر رکھا ہے ، اس وجہ سے رضا کارانہ ٹیکس فائلنگ کی شرح نہایت کم ہے ، لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹیکس دینے کے باوجود بھی انہیں صحت ، تعلیم اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ، حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے لئے کوشش کر رہی ہے اور ماضی کی طرح اس بار بھی ممکنہ قرض کے بدلے آئی ایم ایف کے ممکنہ طور پر مطالبات ہوںگے کہ 1۔ ٹیکس آمدنی کا تناسب قومی پیداوار (GDP)کے مقابلے میں بڑھایا جائے ،2۔ سبسڈی کم کی جائے ،3۔ توانائی کے شعبہ میں ریونیو ( محصولات) میں اضافہ ہو۔
حکومت کو اگلے مالی سال 2025-26 ء میں بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے زیادہ محصولات (revenue ) درکار ہیں اور چونکہ براہ راست ٹیکس لگانا مشکل ہوگا ، اس لئے قوی امکان ہے کہ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہو گا ، بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر مزید لیوی یا ٹیکس لگائے جائیں گے ، در آمدی اشیاء پر لیوی میں اضافہ بھی ممکن ہے ، اگر ان اقدامات پر عمل درآمد ہوا تو روزمرہ کی اشیاء اور سروسز مزید مہنگی ہوں گی ،جس سے عام آدمی کا بجٹ متاثر ہوگا ، مہنگائی کی موجودہ شرح جو پہلے سے بلند سطح پر ہے ، مزید بڑھنے کا خدشہ ہے ،مہنگائی کے اضافے سے عوام کا غصہ بڑھے گا ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ حکومت پہلے ہی دبائو کا شکار ہے ، اگر ٹیکس صرف بالواسطہ لگائے جائیں گے ، یعنی عام صارف سے وصول کئے جائیں گے تو یہ اور بھی مسائل پیدا کریں گے۔
جون 2025 ء میں پیش ہونے والا وفاقی بجٹ پاکستان کے لئے ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ، آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کی کوشش کمزور معیشت اور بڑھتے ہوئے مالی خسارے کے تناظر میں عوام اور حکومت کو ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے ، حکومت کے لئے انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ عوام کو ریلیف دے کیونکہ محصولات میں اضافے کے لئے حکومت مزید ٹیکس عائد کرنے پر مجبور ہوگی ،حکومتی ذرائع اور ماہرین معاشیات اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آنے والے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف گذشتہ سالوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوگا ، اس لئے کہ آئی ایم ایف نے ٹیکس کی شرح کو مجموعی قومی پیداوار( GDP )کے تناسب سے بڑھانے کی شرط رکھی ہوئی ہے۔حکومتی آمدنی اور اخراجات میں شدید عدم توازن، اندرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیاں معیشت پر مسلسل بوجھ بن رہی ہیں ، تاریخی طور پر پاکستان میں بجٹ کا بوجھ ہمیشہ تنخواہ دار طبقہ ، متوسط طبقہ ،اور عام شہری پر ہی ڈالا جاتا رہا ہے ، لہذا اب بھی امکان ہے کہ بجلی ، گیس، اور پیٹرول پر مزید سرچارجز اور لیویز عائد ہوں گی ، جی ایس ٹی ( سیلز ٹیکس )کی شرح میں بھی اضافے کی توقع ہے ،جو ہر چھوٹی بڑی اشیاء کی قیمت میں اضافہ کا سبب بنے گا ، ممکنہ طور پر درآمدی اشیاء پر کسٹمز ڈیوٹی بڑھا کر مقامی صنعت کو سہارا دیا جائے گا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا ،
یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت بجٹ میں کچھ عوام دوست اقدامات کا علان کرے گی ، جیسا کہ احساس پروگرام ، بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں اضافہ کرے ، اور کسانوں کے یا چھوٹے کاروباروں کے لئے قرض اسکیمیں ، پنشن یا تنخواہوں میں معموکی اضافہ مگر یہ سب اقدامات اس وقت منع رکھتے ہیں جب بنیادی اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہوں ، جو کہ بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کے عا ئد کرنے سے ممکن نظر نہیں آتا ، بجٹ 2025-26 ءحکومت کے لئے ایک بڑا کٹھن امتحان ہے ، یہ ایک صرف مالیاتی دستاویز نہیں بلکہ حکومت کی نیت ، ترجیحات اور عوام سے کئے گئے وعدوں کا عملی مظاہرہ ہوگا ، اگر یہ بجٹ بھی گذشتہ بجٹوں کی ظرح غریب کو مزید غریب اور امیر کو مزید محفوظ بنانے کا ذریعہ بنا تو نتائج صرف معاشی ہی نہیں سیاسی بھی ہوں گے ،یاد رہے کہ حکومت اس وقت سیاسی دبائو میں ہے مہنگائی ،بے روزگاری اور عوامی بے چینی کے مزید بڑھنے سے حکومت کو نہ صرف سڑکوں پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ اس کی سیاسی بقاء بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے ، لہٰذا عالمی بینک کے خدشات اور سخت تنقید کو مدنظر رکھ کر ٹیکس کا نظام رجعت پسند اور مراعات یافتہ طبقے کے مفاد میں نہ بنایاجائے۔
عالمی بینک کی ٹیکس نظام پر تشویشات
Apr 27, 2025