بھارت کا فالس فلیگ بیانیہ اور پاکستان کا ذمہ دارانہ مؤقف

Apr 27, 2025

سردار عبدالخالق وصی

جنوبی ایشیا کا جغرافیہ شاید دنیا کے ان چند خطوں میں سے ہے جہاں تاریخ اور حال دونوں کشیدگی سے بھرے پڑے ہیں۔ ان دنوں بھارت کی جانب سے پاکستان پر ایک بار پھر فالس فلیگ آپریشن کا الزام عائد کیا گیا ہے — وہی پرانا بیانیہ، وہی دہرانا الزامات، وہی سفارتی چالاکی جس کا مقصد نہ صرف اپنے اندرونی سیاسی بحرانوں پر پردہ ڈالنا ہے بلکہ عالمی برادری کو گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف فضا تیار کرنا بھی ہے۔
یہ منظرنامہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوا جب پاکستان کی اعلیٰ قیادت، جس میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور عسکری حکام شامل تھے، ترکی کے ایک اہم دفاعی و اقتصادی دورے پر موجود تھی۔ بھارتی پروپیگنڈا سامنے آتے ہی اس دورے کو فوراً منسوخ کر کے اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں تینوں مسلح افواج، انٹیلیجنس ادارے، وزارت خارجہ، داخلہ اور اطلاعات کے نمائندگان شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں بھارت کے الزامات کو صریح جھوٹ قرار دیتے ہوئے اسے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بتایا گیا۔
عسکری ماہرین اور سابق سفیروں نے بھارت کے اس رویے کو سفارتی اور عسکری بے اصولی سے تعبیر کیا ہے۔ جنرل (ر) طلعت مسعود، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی اور جنرل عاصم سلیم باجوہ سمیت متعدد دفاعی تجزیہ کاروں نے بھارت کی اس حکمت عملی کو اس کی روایتی "ریپیٹ اسٹریٹیجی" کا تسلسل قرار دیا ہے، جو ہر الیکشن یا اندرونی بحران کے وقت جھوٹے پاکستانی بیانیے پر مبنی جھڑپ پیدا کر کے داخلی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سفیروں نے بھی یہ واضح کیا کہ اس طرح کا رویہ اقوام متحدہ کے اصولوں، اور جنوبی ایشیا میں قیامِ امن کے تمام امکانات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
بھارت کی حالیہ پروپیگنڈا مہم میں جس تنظیم کا ذکر بطور جواز کیا جا رہا ہے —The Ressistance Front__ (TRF) وہ دراصل خود بھارت کے خفیہ اداروں کی تخلیق ہے، جسے استعمال کر کے وہ پاکستان کو FATF اور اقوام متحدہ میں بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ عالمی ادارے متعدد بار اس تنظیم کو بھارتی پروپیگنڈا ٹول قرار دے چکے ہیں، لیکن بھارت اسے پاکستانی ریاست سے جوڑنے پر بضد ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب بھارت نے جھوٹے حملوں کا ڈرامہ رچایا ہو۔ ماضی میں پٹھان کوٹ، اوڑی، پلوامہ حملے اور بالاکوٹ اسٹرائیک جیسے دعوے سب بھارت کے اسی سلسلہ وار فالس فلیگ آپریشنز کا حصہ رہے ہیں، جنہیں بعد ازاں خود بھارتی صحافیوں، حزب اختلاف اور ریٹائرڈ حکام نے بے نقاب کیا۔ ان سب میں بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر جنگی جنون کو ہوا دی گئی۔
ان تمام کوششوں کے ساتھ بھارت نے اب انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس اور بین الاقوامی نوعیت کے معاہدے کو بھی اپنی جارحانہ پالیسی کا ہدف بنایا ہے۔ 1960 ء میں طے شدہ یہ معاہدہ تین جنگوں کے باوجود قائم رہا، اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کی یکطرفہ معطلی کی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں۔ بھارت کا یہ اقدام ایک آبی جنگ کی ابتدا ہو سکتی ہے، جس پر عالمی برادری کو فوری ردعمل دینا چاہیے۔
اسی دوران بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بھی کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی ہے، جس سے سرحدی ماحول میں جنگ جیسی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا کو مجروح کر رہا ہے بلکہ خطے کے مجموعی استحکام کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ، کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔
بھارت دراصل ان تمام حربوں سے مقبوضہ کشمیر میں اپنے 5 اگست 2019ء کے غیر آئینی اقدامات کو دوام دینا چاہتا ہے۔ اس دن اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کشمیریوں کی شناخت، خودمختاری اور بنیادی حقوق پر ضرب لگائی، اور اب مختلف فالس فلیگ آپریشنز اور سرحدی کشیدگی کے ذریعے اس تبدیلی کو "نارمل" ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر سچ یہی ہے کہ کشمیری عوام آج بھی بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ ان کا جذبہ، ان کا خون، اور ان کی امیدیں آج بھی آزادی اور پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے ہمیشہ عالمی قوانین، امن، مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کی ریاست، اس کی افواج اور عوام بھارت کی ہر قسم کی مہم جوئی کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے پاس بے شمار شواہد موجود ہیں جو بھارت کو ریاستی دہشت گردی میں ملوث ثابت کرتے ہیں — بلوچستان میں شورش سے لے کر کراچی میں بدامنی تک، ان تمام مظالم کے پیچھے بھارت کے خفیہ ہاتھ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد بھارت کے چہرے سے جمہوریت کا نقاب اتر چکا ہے۔ اب دنیا بھارت کو ایک عالمی دہشت گرد کے طور پر دیکھنے لگی ہے، جب کہ پاکستان اپنی امن پسند پالیسی، اقلیتوں کے تحفظ اور قانون کی بالادستی کے ذریعے دنیا بھر میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنی ساکھ کو مستحکم کر رہا ہے۔
یہی وقت ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ میں اپنی موجودگی کو مؤثر طریقے سے استعمال کرے۔ میڈیا، تھنک ٹینکس، انٹیلیجنس ادارے، اور سفارتی مشن سب مل کر مربوط حکمت عملی کے تحت بھارت کے فریب اور جھوٹے بیانیے کو عالمی سطح پر بے نقاب کریں۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہو گا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، مگر اپنی خودمختاری، نظریاتی سرحدوں، اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

مزیدخبریں