میں نے جب بھی ان پر کالم لکھا تو جناب عبدالمجید منہاس کے حکم پر لکھا۔ مارچ میں جب ہم لوگ سود پر ایک سیمینار کر رہے تھے تو اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مجھے منہاس صاحب کا فون آیا، میں ان کے فون کو نہ سننا گناہ تصور کرتا ہوں، منہاس صاحب نے کہا کہ تائب صاحب کی سالگرہ آ رہی ہے، اس موقع پر انہیں یاد کر لیجئے۔میں سستی کا مارا تاخیر کرتا چلا گیا، منہاس صاحب کے فون لگا تار آنے لگے۔میں اندر سے شرمندہ تھا کہ ہر سال دو کالم ان پر لکھتا ہوں اب نئی چیز کیا لکھ پائوں گا، یہ حسن اتفاق ہے کہ سود کے مکالمے میں سرور حسین نقشبندی نے نعت پڑھی اور وہ بھی اپنی نہیں بلکہ جناب حفیظ تائب کی۔ اب تو میں نے سرور صاحب کا یوں پیچھا شروع کیاجیسے منہاس صاحب میرا کر رہے تھے اور میں آخر جناب سرور حسین سے حفیظ تائب پر ایک خوبصورت تحریر لکھوانے میں کامیاب ہو گیا، آپ اسے سرور حسین کے کالم کے طور پر ہی پڑھیں اور اچھا لگے تو انہی کو داد دیں۔
حفیظ تائب نعت کے حوالے سے پاکستانی ادب میں نمایاں ترین حوالے کے طور پرہمیشہ جانے جاتے رہیں گے۔نعت کا فن جس سنجیدگی، متانت، حلم، بردباری، عجز و انکسار اور دیگر شخصی اوصاف کا تقاضا کرتا ہے وہ انہیں توفیق ایزدی سے نعمت کی صورت ودیعت کی گئیں تھیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ایک قابل قدرنقاد کا کہنا ہے کہ اگر آپ جاننا چاہیں کہ نعت کیسی ہونی چاہئے تو حفیظ تائب کی نعتیں پڑھ لیں اور اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ نعت نگار کو کیسا ہونا چاہئے تو حفیظ تائب سے ملاقات کر لیں۔انہیں اپنے شعبے میں جتنی شہرت ملتی گئی اتنی ہی ان کی نیازمندی بھی بڑھتی چلی گئی، جتنی وقار میں بلندی آتی گئی اتنا ہی انکساری میں بھی اضافہ ہوتا گیا، لوگوں کی محبت جوں جوں فزوں تر ہوتی گئی اتنا ہی تحمل و بردباری بھی کئی گنا بڑھتی گئی۔ علم و فن میں جتنا کمال آتا گیا لہجے میں مٹھاس اور طبیعت کے گداز میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا۔ صاحب نعت سے منسلک فن سے محبت نے ان میں دھیمے پن کی ایسی شان پیدا کر دی تھی جو دراصل ان کی اٹھان کا سبب بنتی چلی گئی جسے انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنی شخصیت اور کردار کا حصہ بنایا۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کا فن میں مقام بن جائے تو فنکار کی فنی ریاضت کم ہو جاتی ہے لیکن حفیظ تائب اس معاملے میں آخر دم تک حساس رہے۔ ایک ایک لفظ کو ناپ تول کر لکھنا اور اس کے مزاج سے آشنا ہو کر جب تک اپنی طبیعت مطمئن نہ ہوجاتی تب تک اس حوالے سے سوچتے رہتے۔اسی لئے ان کی شاعری کے حوالے سے یہ مضبوط تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے کہے ہوئے مصرعے سے کسی لفظ کو ہٹا کر اس کی جگہ کوئی اور لفظ لگانے سے شعر کا حسن قائم نہیں رہتا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ الفاظ کے ممکنہ مترادفات اور متبادل پر کس قدر غور و خوض کر کے موزوں ترین لفظ کا انتخاب کرتے تھے۔اسی لئے ان کی شاعری کو اہل علم کے ہاں معیار کے اعتبار سے نعتیہ ادب میں حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے کام کو نئی نسل مشعل راہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ حفیظ تائب بطور شخصیت کا ایک اہم کارنامہ اپنے عہد کے نمائندہ شعراء اور نوجوان لکھنے والوں میں نعت کی تحریک پیدا کرنا بھی تھا۔ انہوں نے معاصرین غزل گویان جن میں احمد ندیم قاسمی جیسے نابغہء عصر بھی شامل تھے نعت کی طرف مائل کیا۔ غزل گو شعراء میں نعت کہنے کا رجحان پیدا کرنا ان کا ایک شاندار کارنامہ ہے۔ نعت گوئی کا معاملہ چونکہ بہت حساس ہے اس لئے بیشتر شعراء سوئے ادب ہو جانے کے خوف سے نعت لکھتے ہوئے گھبراتے تھے تو اس صورتحال میں وہ اس بات سے تسلی دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ نعت تو بارگاہ رسالت میں حاضری کی ایک صورت ہے تو آپ خود کو کیوں اس عظیم نعمت سے محروم رکھتے ہیں اور یوں پورا عہد اور معاصرین نعت کے نور سے فیض یاب ہوتے چلے گئے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نئے لکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی۔ ان کے کلام کو نکھارنے اور سنوارنے میں اپنا بہت سا وقت صرف کیا۔پاکستان بھر سے ان کے پاس چھپنے والے نعتیہ مجموعوں کے مسودوں کا ہر وقت ڈھیر لگا رہتا تھا جسے وہ بڑے شوق سے عبادت سمجھ کر دیکھتے تھے۔ ان کے دور میں چھپنے والا شاید ہی کوئی نعتیہ مجموعہ ہو جس میں ان کے تحسینی کلمات شامل نہ ہوں۔پیشوائیوں کے عنوان سے انہوں نے درجنوں کتابوں پر مضامین اور آراء لکھیں جو اب الگ سے جمع ہو کر چھپنے کے مراحل میں ہیں۔ان کی شخصیت کا ایک نہایت اہم پہلو ایک ایسی بیماری کے ساتھ طویل سفر ہے جس کے نام سے ہی لوگ مایوسی اور کم ہمتی کا بری طرح شکار ہو جاتے ہیں۔انہوں نے کینسر کے مرض کے ساتھ کم و بیش ایک دہائی کی بھرپور زندگی گزاری۔اس میں ان کے معمولات روزو شب بھی رواں دواں رہے، علاج کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا اور احباب کی غمی خوشی میں بھی پوری فعالیت سے شریک ہوتے رہے۔ان کے معالجین بھی ان کی اس بیماری کے ساتھ پرعزم اور متحرک زندگی پر بہت حیران و ششدر تھے۔جب تک بیماری نے انہیں مکمل عاجز نہیں کر دیا تب تک وہ معمولات زندگی میں مکمل گرم جوشی سے سرگرم عمل رہے۔حفیظ تائب کی شخصیت کا ایک اور بہت دلچسپ پہلو ان کے مختلف مسالک کے درمیان قابل قبول ہونا بھی تھا۔مذہبی شناخت کے حامل لوگ زیادہ تر ایک خاص حلقے کے نمائندہ بن کر ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں لیکن حفیظ تائب کے حلقہ ارادت میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے اور وہ ان سب کے لئے محبت کی علامت تھے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کا عوام و خواص میں یکساں مقبول ہونا بھی حیرتوں کے باب کھولتا ہے۔ان کی نعت نگاری کی گونج کا دائرہ اہل علم و ادب، علماء و مشائخ،میڈیا ونشریاتی اداروں، صحافتی و قلم کار برادری کے ساتھ ساتھ عوامی سطح کے نعت کا ذوق رکھنے والے کثیر حلقے تک پھیلا ہوا تھا جہاں ہر کہیں انہیں احترام و عقیدت سے دیکھا جاتا تھا۔اس تمام کے ساتھ ساتھ ہم اطراف میں دیکھتے ہیں کہ کسی بھی شعبے میں عزت اور مقام پانے والوں کے اپنے اعزاء و اقارب اور اہل خانہ سے تعلقات اتنے اچھے نہیں رہ پاتے۔حفیظ تائب نے بطور نعت نگار اس محاذ پر بھی حضور کی سیرت سے استفادہ کرتے ہوئے کامیابی سے سفر کیا۔ان کی اولاد نرینہ نہیں تھی لیکن اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے۔ بیٹیوں کے سسرال اور دیگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں تھا جسے ان سے کسی حوالے سے شکر رنجی ہو۔بلا شبہ آج کے دور میں یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔رشتوں کو نبھانا اور ان کو ساتھ لے کر چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ان کے چھوٹے بھائی عبدالمجید منہاس انہیں اپنا مرشد اور رہنما گردانتے ہیں۔ان کے نواسے نعمان تائب بڑی محنت سے ان کے کام کو کتابی شکل میں محفوظ بنانے کاکام نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ان کے نعتیہ کلام کے علاوہ ان کی دیگر شاعری، شخصی و موضوعاتی نظمیں اور وطن کے لئے لکھے گئے نغمات بہت اثر پذیر ہیں جن پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔اپنی اسی شاعری پر مشتمل کتاب ''تعبیر'' کو انہوں نے صحافت میں بے باکی اور حق گوئی کی علامت مر شد مجید نظامی کے نام کیا تھا۔نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں وہ ''حمد و نعت کی بہاریں'' کے عنوان سے سالانہ جائزہ بھی لکھتے رہے جو بہت محبت سے پڑھا جاتاتھا جس میں وہ سال بھر میں شائع ہونے والی کتابوں کا ایک تعارفی خاکہ پیش کرتے تھے۔نعت کے طالب علموں اور محققین کے لئے یہ ایک حوالے کے طور پر دیکھا اور پڑھا جاتا تھا۔گویا وہ شخصی اوصاف اور فنی خصائص کے حسن توازن اور حسین امتزاج میں گندھے ہوئے آدمی تھے۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے عقیدت مند بھائی عبدالمجید منہاس کو صحت و عافیت عطا کرے جو آج بھی اپنے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے اشکبار ہو جاتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024