میرے آبائی قصبہ میترانوالی کی کل آبادی25ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور یہاں مساجد، امام بارگاہوں اور درجن بھر مدرسوں سمیت عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد پینتیس کے قریب ہے غرضیکہ ہر مسلک کی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔قصبہ کا مرکزی بازار تقریباً دو کلومیٹر طویل ہے اور ہر دُکان یا کاروباری ادارے کے فرنٹ کائونٹر پر برائے عطیہ کے کیش بکس پڑے نظر آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق صرف قصبہ کے اندر سو سے زائد کل وقتی تعویذ ، دھاگہ اور دم درود کرنے والے جعلی عامل ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔ قصبہ میں میلوں ٹھیلوں اور عرسوں کا سیزن بھی اس کے علاوہ ہے۔ سادہ لوح دیہاتیوں کو مذہب کے نام پر ڈرا دھمکا کر ان کی جمع پونجی اور زمین و جائیداد ہتھیانے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ مساجد کے منتظمین چند سالوں میں صاحب حیثیت بنے نظر آتے ہیں۔ قارئین اکرام! گذشتہ کچھ روز سے رمضان المبارک کا مبارک مہینہ شروع ہو چکا ہے اور اتفاق سے مجھے اس مبارک مہینے کے پہلے عشرے کے چند روز آبائی قصبہ میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ علی الصبح دو بجے سحری کا سائرن بجنا شروع ہو جاتا ہے۔سحری کے بعد رمضان کی وجہ سے اشیائے صرف و خورونوش بیچنے والے خوانچاں فروش سرگرم ہو جاتے ہیں جو آلو، ٹماٹر، گوبھی کی صدائیں لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔(قارئین! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مذہبی اور ثقافتی طور پر ایک بھرپور تاریخ رکھتے ہیں۔ خود ہمارے بچپن میں ہم نے سحری کے وقت ڈھول کے ساتھ صوفیانہ کلام گاتے ہوئے لوگوں کو سحری کے لیے جگانے کا رواج دیکھاہے اور افطاری کے وقت صرف گائوں کی ایک جامع مسجد سے نوبت بجائی جاتی تھی بعدازاں اس کی جگہ الیکٹرانک سائرن نے لے لی مگر یہ وہ دور تھا جب عام انسان کے پاس گھڑی میسر نہیں تھی حتیٰ کہ گھروں میں وال کلاک ناپید تھا ۔ صرف محلے کی جامع مسجد میں کلاک نصب ہوتا تھا جسے دیکھ کر موذن سحری اور افطاری کا وقت بتایا کرتا تھا۔اور پچھلے چودہ سو سال سے پورے عالم اسلام میں یہی طریقہ اپنایا جاتا رہا لیکن پچھلے پچاس سال سے جب کلاک اور گھڑی کا استعمال عام ہوا اور آج حالات یوں ہیں کہ تقریباً ہر شخص کے پاس اس کے اپنے موبائل فون میں ڈیجیٹل اذان فیڈ ہے اور اس کے ساتھ الارم بھی۔ قارئین ! یہ یہی لائوڈ سپیکر ہے جسے چند عشرے پہلے تک حرام قرار دیا جاتا رہا۔ اب مریضوں کا خیال نہ رکھنا اور اونچی آواز میں لائوڈ سپیکر کے استعمال نے عام انسان کو بھی ذہنی مریض بنا دیا ہے۔قارئین! میں نے ذاتی دلچسپی اور تجزیے کے لیے ایک سروے کا اہتمام کیا جہاں میرے علم میں یہ بات آئی کہ قصبہ کے ستر فیصد مکین ہیپاٹائٹس بی اور سی کے علاوہ شوگر و کڈنی اور ٹی بی کے موذی امراض میں مبتلا ہیں۔ پچیس ہزار کی آبادی میں ایک بھی کوالیفائیڈ ایم بی بی ایس معالج نہیں ہے۔ عطائیوں کی بھرمار ہے جو غریب دیہاتیوں کا ماس تک نوچ رہے ہیں اور بیان کردہ حالات و واقعات میں پاکستان کے سب سے زیادہ ریونیو دینے والے ضلع سیالکوٹ اور تحصیل ڈسکہ جہاں بے روزگاری کی شرح صفر فی صد ہے مگر علاقے کے مکین کس عذاب سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ مقامی ڈی سی کو شاید نہیں۔ امن وامان، چوری چکاری، قتل و غارت ، لوٹ مار اور ڈکیتیاں عروج پر ہیں۔ مقامی ایس ایچ او تھانہ بمبانوالہ شاید گھوڑے بیچ کر سوئے رہتے ہیں۔ پولیس کا موبائل گشت نہ ہونے کے برابر ہے۔اوپر سے مذہبی شدت پسندی اور کرونا ایس او پیز پر عمل درآمد کی شرح دو فیصدسے زائد نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی پالیسیاں مملکت کو پھر سے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے تھیں مگر ان کے ساتھ موجود ٹیم ان کی مرضی کے مطابق پرفارم کرنے سے عاری ہے۔ میری وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارسے گزارش ہے کہ وہ تھوڑا سا وقت نکال کر کبھی ڈسکہ اور میترانوالی کا بھی چکر لگا لیں شاید اسی وجہ سے تھانہ بمبانوالہ کا ایس ایچ او بیدا رہو جائے۔ایسے میں ،میں بس یہی کہوں گا میرے دوست شعیب بن عزیزکے بقول:
میرے میترانوالی پر بھی اِک نظر کر
تیرا مکہ رہے آباد مولا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024