سوال۔امریکہ میں کبھی مارشل لاء کیوں نہیں لگتا؟
جواب۔ امریکہ میں امریکی سفارتخانہ جو نہیں ہوتا۔
؎ عجب کہ روشنی کا قتل نامہ
دیے کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے
’’میری شادی آپ سے نہیں ہو سکتی ۔ کہیں اور طے ہو گئی ہے ۔ اوہو!میں فون کسی اور نمبر پر ملانا چاہتی تھی ‘‘۔
؎کم تو نہیں خراب محبت میں اپنا حال
لیکن جو سوچ رکھا تھا ویسا نہیں ہوا
ایک مراٹھی نشے میں دھت بار میں داخل ہوا۔ پہلے جام کا آرڈر دینے کے بعد بلند آواز میں کہنے لگا:’’میں آپ کو سرداروں کے لطیفے سناکر خوش کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ مراٹھی کے پاس بیٹھے ایک شخص نے کہا۔’’سنائو ضرور ، لیکن یاد رکھنا بار اٹینڈنٹ سردار ہے ۔ اس کلب کا ویٹر بھی ایک سردار ہے ۔ میں چھ فٹ دو انچ کا نوجوان ہوں اور سردار ہوں۔ میں بلیک بیلٹ بھی رکھتا ہوں۔ وہ جو تمہاری دوسری جانب ایک پہلوان بیٹھا دکھائی دے رہا ہے ، وہ بھی سردار ہے ۔ کلب کا سیکورٹی انچارج بھی ایک سردار ہے ۔ لہذا جو بھی لطیفہ سنائو ، سوچ سمجھ کر سنانا ‘‘۔ مراٹھی نے کچھ سوچا اور پھر بولا۔ ’’رہنے دیں ۔ ایک ایک لطیفہ پانچ سرداروں کو کون پانچ پانچ مرتبہ سمجھائے گا‘‘
؎گھر سے نکل کر جاتا ہوں میں روز کہاں ؟
اک دن اپنا پیچھا کر کے دیکھا جائے
زندگی کا ایک حصہ ذو الفقار علی بھٹو کے ساتھ گزارنے والے راجہ انور لکھتے ہیں۔محترمہ بینظیر بھٹو کسی جاگیردار سے شادی کرنے کے حق میں نہیں تھیں۔وہ سمجھتی تھیں کہ ایک جاگیردار سیاست میں بھی من مانی کرتا ہے اور ازدواجی زندگی میں بھی ۔ اس کے لئے بَر تو مڈل کلاس سے ہی ڈھونڈا گیا ۔ لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ مڈل کلاسیا بھی محترمہ سے شادی کے بعد اقتدار میں آکر ایک جاگیردار بن گیا۔
؎ میرے بعد کُن سے وہ باز آگیا ہے
بڑے شوق سے مجھ کو پیدا کیا تھا
پہلی عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز کی ایک کانفرنس کے موقع پر پولینڈ کے پاور رواسکی اور فرانس کے جارج کلی مینئو کے درمیان پہلی مڈبھیڑ ہوئی ۔ جارج مینو نے پوچھا ۔ ’’کیا عظیم پیانو نواز آپ ہی ہیں‘‘ ؟جواب میں پاور رواسکی نے اثبات میں سر جھکایا ۔ ’’اوراب پولینڈ کے وزیر اعظم ہیں ‘‘؟ جار ج کلی مینو کے سوال پرپاوررواسکی نے دوبارہ اثبات میں سر جھکا دیا۔ ’’اف خدایا ‘‘ جارج کلی مینو نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’کیا انحطاط ہے ‘‘؟
؎حضور دوست خجل کر گیا مجھے کیا کیا
وہ اک سوال جو میرے سوال سے نکلا
عصمت چغتائی نے کہا تھا ۔ مصور کا کام ٹھیک ہے ۔ جیسی تصویر بنائی اوروں نے دیکھ لی ۔ لفظ دھوکہ دیتے ہیں۔
؎اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یونہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے
1972ء میں بلوچستان کے خیر بخش مری، بھٹو کے ساتھ چین سرکاری دورے پر گئے ۔ ایئر پورٹ پر ان کے استقبال کیلئے کامریڈ لائنیں بنا کر کھڑے تھے ۔ وہ نعرے لگا رہے تھے ۔"Long Live Mau"۔ خیر بخش مری ایک نعرہ لگانے والے کے پاس پہنچے اور بولے ۔ ’’جب تم خدا کو نہیں مانتے تو یہ دعا کس سے کر رہے ہو ؟‘‘
؎ رکھتے ہو تمنا کہ وہ گل رو نظر آئے ے
آنکھیں بھی تو وہ لائو کہ خوشبو نظر آئے
قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں جب میاں افتخار الدین نے حکومت پر کڑی نکتہ چینی کی تو وزیر اعظم ملک فیروز خان نون بول اٹھے ۔میاں صاحب ! اگر اس ملک میں اشتراکیوں کی حکومت بھی قائم ہو جائے تو آپ پھر بھی حزب اختلاف کا رول ہی ادا کریں گے ۔ میاں صاحب نے فورا ً جواب دیا ۔ ’’اور آپ اس وقت بھی حکومت میں شامل ہونگے‘‘۔
؎گھر گھاٹ کے ہوتے ہوئے بے گھر کی طرح ہیں
ہم شہر بدر لوگ ابوذر کی طرح ہیں
میثاق جمہوریت پر چوہدری پرویز الٰہی کا تبصرہ خوب تھا کہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی ہے ۔آج دونوں جماعتوں کی قیادت پر کڑے دن ہیں۔ زیرک چوہدری پرویز الٰہی کے تبصرے کی آج سمجھ آرہی ہے ۔
؎آسماں ایسا بھی کیا خطرہ تھا دل کی آگ سے
اتنی بارش ایک شعلے کو بجھانے کیلئے
پاکستان دیانت میں دنیا بھر میں 116نمبر پر ۔ لیکن حاجیوں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ اتنے گناہوں کی بخشوانے کیلئے اتنے ہی حج ضروری ہیں۔
؎کس قدر بوجھ تھا گناہوں کا
حاجیوں کا جہا ز ڈو ب گیا
ایسے بوریا نشیں قسمت سے ملتے ہیں ۔ جن کے بوریے میں بوئے ریا نہ ہو۔
؎ آئینے کو کیا خبر اس بھید کی
ایک چہرہ جسم کے اندر بھی ہے
٭…٭…٭
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024