دین سے دوری ‘ موبائل فون‘ جبری شادیاں جھگڑوں کی بڑی وجہ ہیں: سمیرا ستار
ملتان (لیڈی رپورٹر) سپرنٹنڈنٹ دارالامان میڈیم سمیرا ستار نے کہا ہے کہ دیہی و شہری زندگی میں میڈیا کے ذریعے اس قدر آگہی کا فروغ ہو چکا ہے کہ گھروں میں ایک حد تک تو خواتین تشدد سہہ لیتی ہیں لیکن جب حد سے بات بڑھتی ہے تو وہ فرار کی راہ اختیار کرتی ہیں جس میں ایک اہم مسئلہ دینی تعلیم کا فقدان ہے صبر و تحمل‘ قناعت‘ درگزر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے رویے بالکل مفقود ہو گئے ہیں ۔ ٹی وی ڈراموں نے ان پڑھ لڑکے اور لڑکیوں کو آئیڈل ازم کا جہاں خواب انکے اندر جگایا وہاں موبائل کمپنیز کے پیکجز نے والدین اور بچوں میں تعلق کو کمزور کر دیا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دارالامان اپنے آفس میں نوائے و قت سے خصوصی بات کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ اس وقت ملتان ڈویژن شہروں اور دیہاتی علاقوں و قصبوں سے نوجوان لڑکیاں اور خواتین جو طلاق کے کیسز کئے ہوئے اپنے بچًوں کے ہمراہ ادارے میں رہائش رکھے ہوئے ہیں حکومت انہیں رہائش کے علاوہ فری لیگل ایڈ اور بہترین خوراک بھی تین وقت دیتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہاں زیادہ تر وہ لڑکیاں جن کی مرضی کے خلاف شادی طے کر دی ۔ سمیرا ستار نے کہا کہ حکومت کو دینی و دنیاوی تعلیم لڑکے اور لڑکی کے لئے لازمی قرار دینی چاہئے کیونکہ دینی تعلیم جہا ں صراط مستقیم کا سنہرا دروازہ کھولتی ہے وہاں مسائل کو ہینڈل کرنے کا سبق بھی اس میں ہوتا ہے ۔ دارالامان کی سینئر سائیکالوجسٹ طاہرہ تبسم نے کہا کہ ماں گھر کی بنیادی اکائی ہے اگر وہ بچوں کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھتی ہے اور ذمہ داریاں احسن انداز میں پورا کرتی ہے و ہ گھر اور اس گھر کے افراد کبھی مسائل سے دوچار نہیں ہوتے جہاں ماں باپ اور بچوں میں پیار محبت کا رشتہ مضبوط نہیں ہوتا وہاں دوسرے رشتے جگہ بنانے میں دیر نہیں کرتے اسکی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ماں کی شوہر کے ہاتھوں مار پیٹ ہوتی ہے تو بچوں پر اس کا اثر منفی ہوتا ہے اور پھر آگے چل کر بیٹی بھی مار پیٹ دیکھتی ہے اور سہتی ہے تو زندگی میں وہ کوئی ایسا رشتہ چننے میں دیر نہیں کرتی جہاں اسے تشدد سے نجات مل سکتی ہو۔دارالامان کے سینئر کارکن محمد ایوب نے کہا کہ معاشرے میں پھیلے غلط رسم و رواج جن میں وٹہ سٹہ کی شادی بچپن کی شادی اور کم عمری کی شادی جائیداد کے جھگڑے پیسوں اور جائیداد کے لالچ میں والدین کا بیٹیوں کی زبردستی اور کم عمری میں شادی سماجی و معاشرتی و عائلی زندگی میں دراڑیں ڈال دیتی ہے اور بالآخر لڑکیاں گھروں سے بھاگ نکلتی ہیں پھر وہ اپنا نفع نقصان نہیں سوچتیں۔ وارڈن زنیرہ نے کہا کہ ادارے میں مکمل چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے نظم و نسق قائم رکھا جاتا ہے جب بچیوں کو گھروں میں عزت نہ ملے وہاں سسرال کا رویہ بھی اچھا نہیں ہوتا ذہنی‘ جسمانی و نفسیاتی تشدد بغاوت کی راہ دیتا ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔دارالامان کے اکاؤنٹس آفیسر محمد رمضان نے کہا کہ گھروں کو تباہی سے بچانا ہے تو بیٹے اور بیٹی کو دین کے مطابق تربیت و ہنرمندی سے آراستہ کرنا ہو گا۔