ملک برکت علی کی طویل جدوجہد کا ذکر ان کالموں میں سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے ان پر لکھی گئی کتاب کی ا شاعت کا انتظار کرنا پڑے گا، میں اس کتاب کے آخری صفحات سے ایک اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
1940کی قرارداد لاہور قرارداد پاکستان کے طور پر مشہور ہو چکی تھی۔ اس مطالبے کو ہر دلعزیز بنانے کیلئے مسلمانوں نے برصغیر کے مختلف علاقوں میں پاکستان کانفرنسیں منعقد کیں۔ اب تک پنجاب میں مسلم لیگ نہ تو زیادہ موثر تھی اور نہ بہت مقبول۔ پنجاب میں اس مطالبے کوکامیاب کروانے کا کام پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے کیا۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے مختصر عرصے میں کئی ایک کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ پنجاب کی پوزیشن اور اہمیت کااحساس کرتے ہوئے قائداعظم نے بھی اب ساری توجہ پنجاب پر مبذول کر دی تھی۔
مارچ 1940 میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، جس کا اہتمام مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے کیا تھا، قائداعظم نے فرمایا ’’قرارداد پاکستان کے مقاصد کے حصول کیلئے پنجاب کی بنیادی حیثیت ہے‘‘۔ ملک برکت علی نے مسلم لیگ کے مطالبے کی بھرپور حمایت کی۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیراہتمام ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے 20 جولائی 1941کو آپ نے فرمایا کہ پاکستان کا مطالبہ ہر اعتبار سے ایک درست فیصلہ ہے۔ اپنی تقریر کے آغاز میں آپ نے وہ تاریخی پہلو اور اسباب بیان کیے۔ جو پاکستان کے مطالبے کا باعث بنے تھے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ (وزیراعظم) سر سکندر حیات خان نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مسلم لیگ کی قرار داد لاہور کو تسلیم کر لیا اور ایک فارمولہ پیش کیا جو ان کے نزدیک اس آئینی بحران کا واحد حل تھا۔ سر سکندر حیات خان نے قرارداد لاہور کو قرار داد پاکستان کہنا پسند نہیں کیا۔ لائلپور (فیصل آباد) میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بھی سکندر حیات خان نے طلباء سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ کس طرح کا پاکستان چاہتے ہیں۔ ملک برکت علی نے سر سکندر حیات خان کے اس رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے نظریات کے خلاف مدلل جواز پیش کیے۔ جن کا بعدازاں قائداعظم نے بھی متعدد بار اظہار کیا۔
سر سکندر حیات خان اپنی سکیم پر زور دیتے رہے جس کے نتیجے میں ان کے قائداعظم کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تھے۔ یہ اختلاف نومبر 1942 تک یوں ہی جاری رہا۔ ہندو اور سکھ ایم ایل اے ماسٹر تارا سنگھ اور بھائی پرمانند کے مشترکہ اجلاس نے سر سکندر حیات خان کے فارمولے کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا۔ اس کے فوراً بعد مسلم لیگ کانفرنس کا اجلاس نومبر میں لائلپور میں ہوا۔ کانفرنس سے پہلے پنجاب مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس ہوا جس میں سر سکندر حیات خان اور ملک برکت علی نے شرکت کی۔ سرسکندر حیات خان نے کہا کہ ’’بعض حلقے میرے فارمولے کی وجہ سے میری وفاداری پر شک کر تے ہیں حالانکہ یہ بے بنیاد ہے‘‘۔ ملک برکت علی نے بھی ان کی وفاداری پر اطمینان کا اظہار کیا کہ وہ اپنے لوگوں اور لیگ کے فیصلوں کی پابندی کرینگے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ سر ناظم الدین کی صدارت میں ہونے والی پنجاب مسلم لیگ کانفرنس میں قائداعظم اورسر سکندر حیات خان کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ کانفرس میں اپنی تقریر میں سر سکندر حیات خان نے کہا کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ مسلم انڈیا کی تقدیر کا فیصلہ مسٹر جناح جیسے بے لوث لیڈر کر رہے ہیں۔ اس دوران پنجاب صوبائی مسلم لیگ با لکل غیر موثر تنظیم بن چکی تھی۔ نواب شاہ نواز آف ممدوٹ اس کے صدر جبکہ سید خلیل الرحمن سیکرٹری تھے۔ ملک برکت علی اس کی ورکنگ کمیٹی میں شامل تھے لیکن وہ شاذونادر ہی اس کے اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے۔ نواب شاہ نواز کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نواب افتخار حسین خاں صدر منتخب ہوئے۔
سر سکندر حیات خان 26 دسمبر 1942 کو وفات پا گئے اور وہ اتحاد جو انہوں نے بہت دیر تک برقرار رکھا تھا ٹوٹنے لگا۔ جنوری 1943کے آغاز میں مسلم لیگ ورکرز بورڈ تشکیل دیا گیا اس بورڈ کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ یونینسٹ پارٹی کے تمام مسلمان اراکین استعفیٰ دیں اور اسمبلی میں ایک مسلم لیگ پارٹی تشکیل دیں۔ ملک برکت علی نے اس بورڈ کے اغراض و مقاصد کے ساتھ مکمل ہمدردی کا اظہار کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ سر سکندر کی وفات کے بعد ملک برکت علی نے قائداعظم کو ایسی ہی تجاویز دی تھیں۔ 3 جنوری 1943 کو قائداعظم کا ملک برکت علی کو خط انہی تجاویز کا جواب ہے۔
پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی بنانے کا سوال اس وقت پیدا ہوا۔ جب 7 مارچ کے لیگ کونسل کے دہلی کے اجلاس میں مولوی عبدالحمید بدایونی نے قرارداد پیش کی کہ پنجاب اسمبلی کے مسلمان اراکین کو ایک لیگ پارٹی بنانی چاہیے جو کہ مسلم لیگ پالیسی کے مطابق ہو۔ یہ قرار داد پیش کرنے پرالزام لگایا گیا کہ یہ قرار دادملک برکت علی اور ان کے دوستوں کے کہنے پر پیش کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے پنجاب کے نئے وزیراعظم ملک خضر حیات خاں نے کہا کہ یہ قرارداد غیر ضروری ہے کیونکہ جناح، سکندر معاہدے کے تحت لیگ پارٹی پہلے ہی موجود ہے۔ انہوں نے وعدہ کیاکہ وہ اس لیگ پارٹی میں جان ڈالنے اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ قائداعظم کے کہنے پر یہ قرارداد واپس لے لی گئی۔
وزیراعظم کی لیگ کونسل کے اجلاس میں تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ملک برکت علی نے کہا کہ اس تقریر کا ڈیکلریشن ماضی سے انحراف ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب لیگ پارٹی دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنائے گی اور یہ اتحاد یونینسٹ پارٹی کہلائے گا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اپوزیشن کے بنچوں پر کیوں بیٹھے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ موجودہ یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ اور جناح کی فرمانبردار نہیں ہے اور جو نہی مسلم لیگ بنانے کا اعلان ہو جائے گا تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وزراتی بنچوں پر جا کر بیٹھ جائیں گے۔
جون 1943 میں جناح، سکندر معاہدے کی تشریح پر پنجاب کے وزیراعظم سر خضر حیات اور پنجاب مسلم لیگ کے صدر نواب افتخار حسین آف ممدوٹ کے درمیان اختلاف شروع ہو گیا۔ مسلم لیگ کے صدر کا نقطہ نظر وہی تھا جو کہ ملک برکت علی کا تھا۔ نواب افتخار حسین ممدوٹ کا خیال تھا کہ جناح سکندر معاہدہ آج بھی موجود اور قابل عمل ہے۔ جبکہ خضرحیات کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں لیگ پارٹی کے قیام کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ ملک برکت علی نے خضرحیات کے نقطہ نظر کی وضاحت کی۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے اپنے ادارئیے میں لکھا کہ نواب ایک ٹولی بنا رہے ہیں جس کا محرک خود غرضی ہے۔ اور کہا۔ ’’دی ڈان‘‘ میں اجلاس ہوا جن میں پنجاب مسلم لیگ کے صدر پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ لہٰذا قائداعظم کو ان اختلافات کو حل کرنے کیلئے خود پنجاب آنا پڑا۔ مارچ 1944 میں قائداعظم کے سر خضر حیات کے ساتھ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پنجاب مسلم لیگ کے صدر کے ساتھ ناچاقی کی وجہ سے انہیں مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ سردار شوکت حیات کی برطرفی نے حالات مزید خراب کر دیئے۔
اب ملک برکت علی پنجاب مسلم لیگ کے سب سے زیادہ معتبر رہنما کے طور پر سامنے آئے اور آئندہ انتخابات میں وہ بلامقابلہ منتخب ہو کر پنجاب اسمبلی میں آ گئے۔ قائداعظم کی سفارشات پر پنجاب مسلم لیگ نے متفقہ طور پر انہیں پنجاب اسمبلی کی سپیکر شپ کیلئے نامزد کیا تھا لیکن اتحادی پارٹی نے ان کو ووٹ نہ دیئے۔
اکتوبر 1945میں ان کی بیگم کی وفات نے ان کی ذاتی زندگی میں بہت سے مسائل پیدا کر دئیے۔ اکتوبر 1945 میں آپ کوخود بھی دل کا دورہ پڑا لیکن آپ نے مسلسل اپنی پیشہ ورانہ اور سیاسی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ 5 اپریل 1946 کو سیکنڈ انٹی کرپشن سپیشل ٹربیونل کے سامنے مشہور ’برما فراڈ کیس‘ میں دلائل دیتے ہوئے آپ گر پڑے اور چند منٹوں میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
ملک برکت علی کا کیرئیر برصغیر میں مسلمان معاشرے کے رجحانات اور مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ نے بیوروکریٹک تسلط سے آزادی کیلئے ایک پرجوش اور ترقی پسند نوجوان کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور جداگانہ انتخابات اور مسلمانوں کے مفادات کے پرجوش حامی رہے۔ گو کہ بعد میںآپ نے مخلوط انتخابات کی بنیاد پربھی فرقہ وارانہ فسادات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر آپ مسلم لیگ کے پرچم تلے جدوجہد آزادی کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے۔ آپ نے بحیثیت صحافی سیاستدان، وکیل، سکالر اور پارلیمنٹیرین اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ جدو جہد آزادی کیلئے آپ کا سب سے نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ آپ پنجاب میں مسلم لیگ کیلئے تن تنہا مورچہ زن رہے۔ آپ قائداعظم کی ذات سے بہت متاثر تھے اوران کی طلسماتی شخصیت پر عاشق تھے۔ قائداعظم بھی آپ کی را ئے اور فیصلوں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ جہاں تک آپ کے کام کا تعلق ہے تو سردار شوکت حیات خاں نے آپ کی وفات پر آ پ کو اسمبلی میں ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔
’’ملک برکت علی کی صورت میں ہم ایک سیاستدان سے نہیں بلکہ ایک عظیم محب وطن مدبر او ر شریف النفس انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ آپ نے سیاسی پختگی اور ایمانداری کی ایسی مثال قائم کی جس کا اس ملک میں کوئی ثانی نہیں۔ آپ کو ایک نہیں بلکہ کئی بار لالچ اور رغبت دی گئی لیکن آپ ثابت قدم رہے اور دنیا کو ثابت کر دیا کہ آپ کے لیے ذاتی مفادات کی نسبت اصول زیادہ اہم ہیں۔ آج جب کہ یہ ہاؤس ایک عظیم پارلیمنٹیرین سے محروم ہو گیا ہے، ہم ایک ایسے بانی رکن سے محروم ہو گئے جس نے پارٹی کو کئی طوفانوں میں سے بحفاظت سنبھالا اور پھر اس کو ایک سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔ وہ اس ہاؤس میں مسلم لیگ پارٹی کے نہ صرف سب سے پہلے اور سب سے پرانے رکن تھے بلکہ پارٹی ممبران کیلئے ان کی حیثیت باپ کی سی تھی جو ہر مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ نہ صرف پنجاب ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا ہے بلکہ انڈیا ایک ایسے فرزند سے محروم ہو گیا جس کی اس نازک موقع پر تلافی ممکن نہیں ہے۔‘‘
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024