چند روز پہلے بھارتی سپریم کورٹ نے کیرالہ اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو خاتون ''اکھیلا'' (اسلامی نام ہادیہ) کو اپنے مسلمان شوہر ''شفین جہاں'' کے ساتھ رہنے کے حق میں فیصلے دیا ہے۔ بھارت کی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والی ہادیہ نے قریب ایک سال قبل شفین جہاں سے محبت کی شادی کی تھی، جس کے لئے اس نے ہندو دھرم چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا ہادیہ کے باپ کے مطابق اس شادی کی بنیاد'' لو جہاد'' ہے اس کے والد کا کہنا تھا کہ اس کی فیملی میں ذہنی بیماری کی ہسٹری ہے ہادیہ بھی ذہنی بیمار ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شفین جہاں نے اس کو اپنے محبت کے دام میں پھنسا کر اپنے مقصد کی تکمیل کی ہے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں بننے والے تین رکنی بنچ نے جوڑے کو بالغ قرار دیتے ہوئے انہیں ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ ہادیہ کے ہندو والد ''اشوکن'' نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بیٹی ایک دہشت گرد کے ساتھ جا رہی ہے وہ اس کے خلاف قانونی جنگ جاری رکھے گا۔ اشوکن کو اس کے لئے بی جے پی کے مقامی راہنماوں اور لو جہاد کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ''آر ایس ایس'' کی حمائت بھی حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارت میں ایک بار پھر '' لو جہاد'' کا شور زور پکڑ گیا ہے۔
لو جہاد'' انڈیا میں استعمال ہونے والی اس دہائی کی سب سے متنازعہ اور مقبول ترین ٹرم ہے ۔انڈیا کے انتہا پسند، کٹر مذہبی رجحان رکھنے والے ہندوئوں کے مطابق مسلمان جان بوجھ کر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے دام میں پھنساتے ہیں۔ ہندو ناریاں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان مسلمان مردوں سے شادی کی خاطر مذہب اسلام قبول کرنے پر تیار ہو جاتی ہیں۔ قوم پرست اور مذہبی نظریات رکھنے والے ہندوئوں کے خیال میں مسلمان مرد ایسا محبت کے زیر اثر نہیں کرتے بلکہ درحقیقت وہ '' لو جہاد '' کر رہے ہوتے ہیں ان کا اصل مقصد انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی بڑھانا ہے تا کہ وہ اقلیت کی بجائے اکثریتی آبادی بن جائیں اور مذہب اسلام انڈیا کا اکثریتی مذہب بن جائے انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) نظریاتی تنظیم ''آر ایس ایس'' کے ساتھ مل کر اس جہاد کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کی گزشتہ الیکشن میں کامیابی کی چند وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ ''لو جہاد'' کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں پرجوش انداز میں حصہ لینا بھی رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے دباو کی وجہ سے انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے ''این آئی اے''لو جہاد کے حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے مگر اب تک کی تفتیش سے ایسا کچھ سامنے نہیں آ سکا کہ واقعی ان شادیوں کے پیچھے ''لو جہاد'' جیسی سوچ کارفرما ہے غیر جانبدارانہ سوچ بھی یہی ہے کہ ان شادیوں کے پیچھے واقعی ہی کوئی ''لو جہاد'' جیسا مقصد کارفرما نہیں ہے اور نہ ہی اس کا اسلام یا مسلمانوں کو کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ہاں '' لو جہاد'' بہت کارآمد اور ثمر آور ثابت ہو سکتا ہے اگر انڈیا اور پاکستان '' لو جہاد'' کے اس فلسفے کو اپنے مابین لاگو کر لیں دونوں ملکوں کے مابین یہ ''لو جہاد'' وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگست 1947 سے 2018 تک انڈیا اور پاکستان کو آزاد ہوئے 71 برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں کے دوران کبھی بہت خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو پائے 71برسوں پر محیط نفرت اور دشمنی کے اس رشتے کی وجہ سے دونوں ممالک غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت، جیسے کتنے ہی اہم اور فوری حل طلب معاملات کی بجائے خود کو عسکری اور دفاعی طور پر مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں انڈیا پاکستان پر اپنی دھاک بٹھانے اور طاقت کے توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لئے اپنے بجٹ کا بڑا حصہ دفاعی اور جنگی ساز و سامان بنانے اور خریدنے میں خرچ کر رہا ہے، جواباً پاکستان اس توازن کو برقرار رکھنے کے لئے یہی کچھ کر رہا ہے۔ نتیجتاً دونوں طرف کے عوام اور معیشت بدحال ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر انڈیا اور پاکستان کے مابین '' لو جہاد'' کا کھیل شروع ہو جائے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو تباہ کر دینے کا خواب دیکھنے کی بجائے محبت کو فروغ دینے لگیں اربوں ڈالرز جو دفاع کی نذر ہو رہے ہیں ان سے عوامی فلاح کے منصوبے شروع ہو جائیں۔ معیشت ترقی کرنے لگے، آزادانہ تجارت شروع ہو، پاکستانی مصنوعات کی رسائی بھارت کی سو کروڑ آبادی تک ہو جائے۔ بھارتی مصنوعات پاکستان میں ملنے لگیں دونوں ملکوں میں لاکھوں بے گھر لوگ فٹ پاتھ پر سونے کی بجائے اپنے گھر پا سکیں۔ ہسپتالوں کی ڈیوڑھیوں پر سسکتے مریضوں کو صحت کی سہولیات میسر آ سکیں تعلیم عام ہو سکے۔ بم بندوقوں کی یہ دوڑ خوشحالی کے مقابلے میں بدل جائے۔ اسی میں دونوں ملکوں کی بہتری اور بقاء ہے نفرت اور دشمنی میں ترقی اور خوشحالی چھپی ہوتی تو وہ 71 برسوں میں دونوں ممالک نے انہیں ضرور پا لیا ہوتا۔ ترقی اور خوشحالی کے لئے دونوں ممالک کو '' لو جہاد'' ہی کا راستہ لینا ہو گا۔ جنگ ضروری ہی ہے تو کیوں نہ غربت، بے روزگاری، بیماری اور جہالت سے کی جائے؟ نفرت ضروری ہی ہے تو کیوں نہ جنگ سے کی جائے امن کے لئے، خوشحالی کے لئے، صحت کے لئے اور تعلیم کے لئے، بھارت اور پاکستان کے بیچ ''لو جہاد'' بہت ضروری ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024