محبوب علی شا ہ
ایس اے حکیم ا لقادری
اﷲ کے نیک بندوں نے ہر دور میں اُٹھتے ہوئے فتنوں کا قلع قمع کیا۔ کفر کی یلغار کو روکا اس دوران مصائب و آلام جھیلے لیکن پرچم اسلا م کو سر بلند رکھا اور انسانیت کی رہبری کے لئے رشدو ہدایت کے چراغ روشن کئے اور اپنے علم و عمل کی ایسی یادیں چھوڑیں جو ہمارے لئے سرمایہ حیات ، ایما ن کی تازگی کا سبب اور رضائے خداوند ی کا موجب ہے۔جن اہل ِ علم و عمل صاحبان عرفاں ہستیوں پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے اور جو بلا مبالغہ صرف آسمان ولایت کے بھی مہر درخشاںہیں۔انہی مقتدر شخصیتوں میں خواجہ خواجگان پیشوائے عارفاں پیر سید محبوب علی شاہ ایک منفرد اور بلند مقام رکھتے ہیں۔جن کے فیوض روحانی سے ایک عالم سیراب ہوا۔ حضرت خواجہ سید محبوب علی شاہ جس خاندان عالی شرافت کے عظیم فرد ہیں۔ان شریعت و طریقت کے ایسے عالی صفات بزرگان ملت اسلامیہ ہیں ۔ جن کی دہلیز کرم پر جبین ہائے عقیدت وافراد ملت اسلامی جھکتی ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سے جد سادات سید العالمین سے جا ملتا ہے۔ سید محبوب علی شاہ نے علم و فضل کے گہوارے میں پرورش پائی۔ آپ کے والدین نڑوکہ سے نقل مکانی کر کے بائیں گوجری آگئے۔ آپ نے علوم دینیہ اپنے والد گرامی سیدحافظ فقیرشاہ سے کی۔تبلیغ و اشاعت دین میں دا م،در م، قدم، سخنے مشغول ہو گئے ۔ تشنگان علم دُور دُور سے آ کر مستفید ہونے لگے ۔ خواجہ سید محبوب علی شاہ اظہار حق میں بے باک تھے۔ اگرچہ ان کی زبان میں سادگی تھی۔ مگر جب وہ معاشرے کی کج روی کو درد و کرب سے بیان کرتے تو دامن آہنگ مرثیہ کا پیرہن اختیار کرلیتا جس سے ان کی زبان سے نکلا ہو ا ہر لفظ دلو ں کے بند دروازوں پر دستک دیتا ہو ا محسوس ہوتا تھا ۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو آپ کے آبائو اجداد کے کردار کا آئینہ دار اورآپ کی سیرت کا ہر رخ آئمہ اطہار کی پاکیزہ زندگیوں کا نمونہ تھا۔ آپ کی مجلس میں کبھی دنیا کے چرچے اور دنیا کی باتیں نہ ہو تی تھیں۔ ہمیشہ آخرت کا ذکر خدا کے دین کی باتوں کا چرچہ رہتا۔ منکرات سے اجتناب کی یہ کیفیت تھی کہ آپ کی مجلس میں کوئی غیبت نہیں سنی گئی۔ آپ کی تبلیغ و تلقین نے ہر طبقہ اور ہر سطح کے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کیا۔ کثیر خلق خدا نے آپ سے استفادہ کیا ۔ آپ غیرشرعی رسوم کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ لوگوں کو احکام شرعی کے اتباع کی تلقین فرماتے ۔ تلاش و جستجو کے بعدبالآخر بخت نے یاروری کی اور آپ کی رسائی حضرت خواجہ سیلمان تونسوی کے خلیفہ اعظم خواجہ اللہ بخش تونسوی جلیل القدر ولی اللہ تھے کے دربار میں ہوگئی ۔اُن سے سلسلہ چشتیہ نظا میہ میں بیت ہوئے اور اجازت و خلافت وسے سرفراز ہوئے۔ والد گرامی کی وفات کے بعد بائیں گوجری سے نقل مکانی کر کے موضع سوہلن علاقہ کا چھڑہ تناول میںوارد ہوئے ملک کے طول و عرض میں آ پ کے فیوض و برکات کا شہرہ اور کرامت کا چرچہ تھا ۔آ پ جس بستی میں قدم رنجہ فرماتے حق تعالیٰ اس سے ہر قسم کی آفات و بلیات دُور فرمادیتے ۔آپ نے ایک سو چھیا سی برس عمر پائی ۔ محبوب علی شاہ 1901 ء میں علاقہ سو ہلن سے ہجرت کر کے حویلیاں تشریف لائے اور یہاں ٹٹرمیرہ موجودہ (محبوب آباد شریف )میں زمین خریدلی ایک مسجد اور مدرسہ کی بنیاد رکھی تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیںکہ اللہ والوں نے جہاں ڈیرے ڈالے اس جگہ کے رنگ ہی بدل گئے شرافت وکرامت عروج پر نظر آنے لگی۔مخلوق کشاں کشاں پروانوں کی طرح ان کے گرد جمع ہو کر اپنے قلوب و اذہان کو صیقل کرنے لگے۔آپ کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے اور آپ انہیں نہایت متانت و سنجیدگی اور حکمت سے راہ حق کی طرف آنے کی دعوت دیتے ۔حضرت سید محبوب علی شاہ سچے عاشق رسولؐتھے ۔ محبت رسول ؐہر چیز پر غالب تھی ۔ حضور ؐ کی شان میں اد نیٰ گستاخی اور بے ادبی کے کلمات کہنے والے کو اپنا اور اسلام کا دشمن گردانتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ذہن عطا فرمایاتھا کہ مشکل سے مشکل اور الجھے ہوئے مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے ۔ سیّد محبوب علی شاہ آٹھ رمضا ن المبا رک بر وز شنبہ وقت ظہر بمطا بق 13نو مبر 1937 ء وفات پا گئے ۔اناﷲ وانا الیہ راجعو ن ۔آپ کا روضہ مبا رک محبوب آبا د شریف میں مرجع خا ص و عا م ہے جو سچے دل سے حا ضری دیتا ہے وہ دربا ر شریف سے اپنے دامن کو گوہر مرادسے بھر لیتا ہے ۔اب خا نقا ہ محبو ب آبا د شریف کے سجا دہ نشین حضرت محد ث ہزاروی کے فرزند اکبر پیر سید محی الدین محبوب ہوئے ۔آپکی دستا ر بندی حضرت خوا جہ محدث ہزاروی نے خودایک عرس مبا رک کی موقع پر کر دی تھی ۔ پیر سید محی الد ین محبو ب مو جو دہ سجا دہ نشین نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شمع حق روشن کر رکھی ہے ۔