آج قومی اسمبلی میں پیش ہونیوالے موجودہ حکومت کے چھٹے بجٹ کے محاسن و مضمرات اور اپوزیشن کی مزاحمتی پالیسی
مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے دور اقتدار کا چھٹا اور آخری بجٹ آج 27؍ اپریل کو قومی اسمبلی میں پیش کررہی ہے۔ یہ بجٹ وفاقی مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل پیش کرینگے۔ پانچ عشاریہ سات ٹریلین روپے کے اس مجوزہ بجٹ میں 12 لاکھ روپے تک سالانہ آمدن کو ٹیکس سے چھوٹ دی جارہی ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد یا اس سے زائد کا اضافہ متوقع ہے۔ اسی طرح مجوزہ بجٹ میں بیکنگ ٹرانزیکشن پر فائلرز کیلئے ٹیرف پالیسی کے تحت ردوبدل کیا جارہا ہے اور خام مال پر ڈیوٹیز میں کمی لائی جارہی ہے۔ مجوزہ بجٹ میں مجموعی ترقیاتی پروگرام کے تحت ترقیاتی اخراجات کی مد میں دو ہزار ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں جبکہ پی این ڈی پی کا حجم آٹھ سو ارب روپے تک ہوگا اور آئندہ مالی خسارہ پانچ عشاریہ تین اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ تین عشاریہ آٹھ فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ اس طرح برامدات کا ہدف 27‘ ارب 30 کروڑ ڈالر اور درامدات کا ہدف 29.2‘ ارب ڈالر رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے جبکہ تجارتی خسارہ 29.2‘ ارب ڈالر تک متوقع ہے۔ بجٹ میں افراط رز کا ہدف چھ فیصد سے نیچے رکھا جائیگا اور جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 6.2 فیصد مقرر کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی کے سائز میں اضافہ کردیا ہے اور اسے حتمی شکل دے دی ہے۔ اس سلسلہ میں قومی اقتصادی کونسل میں پیش کئے جانیوالے ورکنگ پیپر کے مطابق پی ڈی ایس پی کا مجوزہ سائز 750‘ ارب روپے سے بڑھا کر 1030‘ ارب روپے کردیا گیا ہے جبکہ اے پی سی سی نے وفاقی ترقیاتی پروگرام کا سائز 1300‘ ارب روپے متعین کرنے کی سفارش کی تھی۔ قومی اقتصادی کونسل کے ورکنگ پیپر کے مطابق ترقیاتی منصوبے میں 180‘ ارب روپے زرمبادلہ کی شکل میں آئینگے۔ مجوزہ بجٹ میں ترقیاتی رقوم کا سب سے بڑا حصہ مواصلات کو دیا گیا ہے جس کے بعد ٹی ڈی پیز اور سکیورٹی کے منصوبوں پر زیادہ رقوم مختص کی گئی ہیں۔ مجوزہ بجٹ میں مواصلاات کیلئے چار سو ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 39‘ ارب روپے ریلوے اور .44‘ ارب روپے ایوی ایشن کیلئے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح گوادر کی ترقی کیلئے 137‘ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ 835‘ ارب روپے کے سی پیک یا اسکے معاون منصوبے بجٹ میں شامل کئے گئے ہیں۔ مجوزہ بجٹ میں بھاشا ڈیم کیلئے 23‘ ارب‘ مہمند ڈیم کیلئے 2‘ ارب روپے اور پاور سیکٹر کیلئے 80‘ ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جی ڈی پی کا مجموعی طور پر مقرر کیا گیا 6 فیصد کا گروتھ ریٹ آئندہ مالی سال میں حاصل نہیں ہو سکے گا اور اسی طرح ایف بی آر کا متعین کردہ 4013‘ ارب روپے کا ریونیو کا ہدف بھی پورا نہیں ہو پائے گا۔ البتہ مینوفیکچرنگ اور سروسز سیکٹر کے اہداف پورے ہونے کی توقع ہے۔
وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے تحت منتخب ہونیوالی اسمبلی کی میعاد پانچ سال کی ہوتی ہے اور اس تناظر میں اقتدار میں آنیوالی پارٹی کی حکومت کو پانچ سالہ میعاد کے تناظر میں سالانہ پانچ میزانیئے پیش کرنا ہوتے ہیں تاہم موجودہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد یکم جون کو ختم ہورہی ہے جس کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہو جائینگی اور نگران حکومت تشکیل پا جائیگی اس لئے موجودہ اسمبلیوں میں ہی نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنا آئینی مجبوری بن گیا کیونکہ بجٹ (فنانس بل) کی منظوری پارلیمنٹ (قومی اور سینٹ) سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔ اگر یہ بجٹ مروجہ روایت کے مطابق جون میں پیش کیا جاتا تو اس وقت اسکی منظوری دینے والا کوئی آئینی فورم موجود ہی نہ ہوتا اس طرح بجٹ کی منظوری کے معاملہ میں اسکی آئینی پوزیشن کے سوالات اٹھ سکتے تھے چنانچہ حکومت نے آئینی اور اقتصادی ماہرین کی مشاورت سے آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی موجودہ اسمبلی میں ہی پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی تناظر میں صوبائی میزانیئے بھی موجودہ اسمبلیوں میں ہی پیش کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے صرف نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے دورانیئے تک کے اخراجات کیلئے فنانس بل منظور کرائے جائیں۔ یہ میعاد دو یا تین ماہ کی ہو سکتی ہے جس کے بعد نئی منتخب اسمبلیوں کے ذریعے آئینی طریقہ کار کے مطابق نئے مالی سال کے میزانیئے منظور کرائے جائیں۔ اس حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے یہ اعتراضات بھی اٹھائے گئے کہ موجودہ حکومت کو میزانیوں میں ترقیاتی منصوبے بجٹ میں شامل کرنے اور سرکاری ملازمین کو زیادہ مراعات دینے کی صورت میں عین انتخاب کے مرحلہ میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جس کیلئے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی میزانیوں کا دورانیہ دو یا تین ماہ کا رکھا جائے۔ تاہم ان اعتراضات سے قطع نظر وفاقی حکومت نے پورے مالی سال کا میزانیہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنماء مخدوم شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کو نئے مالی سال کا بجٹ اسمبلی میں پیش نہیں کرنے دینگے۔ اس معاملہ میں پی ٹی آئی اور دوسری پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں نے جو بھی مزاحمتی حکمت عملی طے کی ہے‘ اسکی آج قوم کو جھلک نظر آجائیگی۔ اگر پی ٹی آئی فی الواقع قوم کی نمائندگی کی داعی ہے تو اسے بجٹ میں پیش کئے جانیوالے قوم کی فلاح کے منصوبوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے اور قوم کے نمائندہ ہونے کا عملی ثبوت پیش کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو آج خود بھی قومی اسمبلی کے ایوان میں موجود ہونا چاہیے تاہم انکی جانب سے بجٹ اجلاس میں بھی شریک نہ ہونے کا پہلے ہی عندیہ دیا جاچکا ہے۔
چونکہ مجوزہ بجٹ کے بیشتر نکات کا وفاقی مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل دو ہفتے پہلے ہی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کرچکے ہیں اس لئے آج قومی اسمبلی میں پیش ہونیوالے بجٹ کے اکثر محاسن و مضمرات سے عوام کو پہلے ہی آگاہی حاصل ہوچکی ہے۔ اس بجٹ میں جہاں متعدد ٹیکس اصلاحات روشناس کرائی جارہی ہیں جن کے ذریعے ایک لاکھ روپے تک کی ماہانہ آمدنی کے حامل ملک کے شہریوں کو ٹیکس نیٹ سے نکالا جارہا ہے اور اس سے زیادہ کی آمدن پر ٹیکس کی شرح درجہ بدرجہ بڑھائی جارہی ہے۔ وہیں مجوزہ بجٹ میں مختلف اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ بھی متوقع ہے جبکہ ترقیاتی پروگرام کے اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہوئے زرمبادلہ کی شکل میں 180‘ ارب روپے ملنے کی توقع کی جارہی ہے جو قوم کو سہانا خواب دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح تک جانے کے خطرے کی پہلے ہی گھنٹی بجائی جاچکی ہے چنانچہ اس تناظر میں مجوزہ بجٹ کو عوامی فلاح کے بجٹ سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ ادوار حکومت میں بجٹ میں شامل ترقیاتی منصوبوں کیلئے سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکہ سے ملنے والی رقوم پر تکیہ کیا جاتا رہا اور یہ رقوم نہ ملنے کے باعث میزانیوں میں رکھے گئے ترقیاتی منصوبے غارت ہوتے رہے جبکہ اب ترقیاتی پروگرام کیلئے اس زرمبادلہ پر تکیہ کیا جارہا ہے جو پہلے ہی خطرناک حد تک نیچے جا چکا ہے چنانچہ زرمبادلہ کی اعلان کردہ رقم سے بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کے ماتحت منصوبے رکھنا عوام کو چکمہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح مجوزہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کو انکی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کی شکل میں دی جانیوالی رعایت مختلف اشیاء کیلئے جی ایس ٹی کی شرح میں اضافے کے باعث کافور ہو جائینگی۔
توقع تو یہی تھی کہ موجودہ حکومت کو چھٹا قومی بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا ہے تو وہ آنیوالے انتخابات کے تناظر میں اسے عوام کی فلاح کا مثالی بجٹ بنائے گی جس کے بارے میں اپوزیشن جماعتیں بھی سٹپٹا رہی تھیں کہ مجوزہ بجٹ کے تحت حکمران جماعت کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا موقع مل رہا ہے جس سے وہ آئندہ انتخابات میں فائدہ اٹھائے گی۔ اگر حکومت اس بجٹ کے ذریعے فی الواقع عوام کے دل جیتنے کی خواہش مند ہوتی تو بھاشا اور مہمند ڈیم کے علاوہ کالاباغ ڈیم کیلئے بھی رقم مختص کرکے اس ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیتی۔ تاہم موجودہ حکومت کے پیش کئے جانیوالے چھٹے بجٹ کے جو اہم نکات سامنے آئے ہیں اسکے تناظر میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ حکمران جماعت اپنے دوراقتدار کے آخری بجٹ سے بھی عوام کی خدمت کا کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتی اور اعدادوشمار کے ہیر پھیر سے بدستور عوام کی درگت بنانے کی پالیسی ہی برقرار کھی گئی ہے۔ ایسی پالیسیوں کے ساتھ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی عوام میں پذیرائی کی کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن کو بھی اس مجوزہ بجٹ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے یہ بجٹ حکمران جماعت کو منتخب ایوان میں بلاچون و چرا پیش کرنے دینا چاہیے۔ اسی بجٹ کی بنیاد پر عوام آئندہ انتخابات میں حکمران جماعت کے ساتھ خود حساب کتاب کرلیں گے۔