امریکہ اسوقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے ۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے آگے ہے۔ عسکری طور پر طاقتور اور معاشی طور پر مضبوط ملک ہے اس لئے دنیا کے تمام ممالک امریکہ سے قربت اور دوستی کی کوشش کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے امریکہ کی دوستی اکثر اوقات نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی ملک ا مریکی دوستی کی وجہ سے نقصان اٹھاتا ہے۔اب تو یہ حقیقت بن چکی ہے کہ امریکہ اپنے دشمنوں کی نسبت اپنے دوستوں کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔اسی لئے امریکی دوستی قابلِ اعتماد نہیں۔یہی تجربہ ہم پاکستانیوں کو بھی ہوا ہے۔ 1948میں پاکستان نے روس کا دعوت نامہ ٹھکرا کر امریکہ دوستی کا فیصلہ کیا اور پاکستان پر خلوص طور پر اپنی طرف سے یہ دوستی نبھاتا بھی رہا لیکن امریکہ دوستی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ روس ہمارے ابدی مخالف بھارت کی پشت پر چلا گیا اور یاد رہے کہ روس بھی اسوقت سپر پاور تھا۔ روس کی مدد سے بھارت نے ترقی کی اور روسی ہتھیاروں کی بے تحاشہ فراہمی سے بھارتی فوج دنیا کی تیسری بڑی مضبوط فوج بن کر ابھری۔روس کی مدد سے بھارت نے بزور طاقت بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے پاکستان کو دو لخت کردیا اور ہم امریکی امداد کا انتظار ہی کرتے رہے ۔ جب بھی پاکستان کے مفادات یا سا لمیت کو خطرہ محسوس ہوا امریکہ نے پیٹھ پھیرلی۔
1962میں جب بھارت چین لڑائی ہوئی تو پاکستان نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر کشمیر میں مداخلت کی منصوبہ بندی کی لیکن امریکی مداخلت نے ہمیں اس منصوبے پر عمل کرنے سے روک دیا۔مسئلہ کشمیر حل کرانے کا یہ بہترین موقع تھا جو امریکہ نے ضائع کرادیا۔1965کی پاک بھارت جنگ میں جب ہمیں ہتھیاروں اور خصوصاً سپیئر پارٹس کی سخت ضرور ت پڑی تو امریکہ نے لال جھنڈی دکھا دی۔ 1971میں بھی یہی کچھ ہوا۔کشمیر پر بھی روس نے کھل کر بھارت کی مدد کی ۔اقوام متحدہ میں کشمیر پر بحث تک نہ ہونے دی جبکہ امریکی امداد محٗض سراب ثابت ہوئی۔امریکہ اگر چاہتا تو یہ مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا مگر یہ آج تک اٹکا ہوا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں کسی قسم کی انڈسٹری نہ تھی۔ہتھیاروں کی تمام فیکٹریاں بھارت میں تھیں۔ مجبوراً پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی کیلئے امریکی امداد پر انحصار کرنا پڑا لیکن قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے کسی ایک ملک سے ہتھیاروں کا حصول خود کشی کے مترادف ہے۔کوئی ملک مستقل طور پر دوست نہیں ہوتا۔مشکل وقت میں یہ ملک ہتھیار روک کر بلیک میل کر سکتا ہے جیسا کہ امریکہ نے کیا۔لہٰذا پاکستان نے متبادل ذرائع سے ہتھیاروں کے حصول کی منصوبہ بندی کی ۔اس میں برطانیہ ،فرانس ،سیکنڈے نیوین ممالک اور پڑوس میں چین سے درخواست کی گئی۔دیگر ممالک کی نسبت چین کی طرف سے بہت مثبت جواب ملا۔پاکستان نے چین سے تعلقات بڑھانے شروع کئے جو آہستہ آہستہ دوستی میں بدل گئے۔پاکستان نے اپنی معاشی حیثیت کے مطابق وہاں سے ہتھیار خریدنے شروع کئے تو یوں آہستہ آہستہ امریکی ہتھیاروں پر انحصار کم ہوا۔
Stockholm International Peace Research Institute کے مطابق2010 میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت ایک بلین ڈالر سے کم ہو کر محض 21ملین ڈالرز رہ گئی۔ چین سے ہتھیاروں کے حصول میں سب سے بڑا بریک تھرو 2007 میں ہواجب چین نے پاکستان کو JF-17تھنڈر فائٹر جہاز دئیے اور پھر ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کی۔ یہ جہاز پاکستان میں ہی بننے شروع ہو گئے بلکہ پاکستان نے ایکسپورٹ بھی کرنے شروع کر دئیے۔یہ اس لئے ہوا کہ پاکستان نے امریکہ سے 8عدد F-16 خریدنے کی قیمت ادا کی لیکن امریکہ نے بھارت کے پریشر میںآکر F-16دینے سے انکار کر دیا۔ حال ہی میں چین پاکستان قربت اور ہتھیاروں کی فراہمی پر فنا نشل ٹائمز میں ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے جس میں امریکی سرد مہری اور چین کے ساتھ دوستی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مضمون کیمطابق ’’پاکستان نے آہستہ آہستہ ہتھیاروں کی فراہمی کیلئے امریکہ پر انحصار کم کر دیا ہے اور یہ خلا چین پر کررہا ہے۔ساتھ ہی مضمون میں تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ پاک چین قربت کے تزویراتی نتائج تکلیف دہ بھی ہو سکتے ہیں‘‘۔ پاکستان کی امریکہ سے سرد مہری کی کئی وجوہات ہیں ۔پہلا تو یہ ہے کہ جب امریکہ کو ضرورت تھی تو پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی اور نان نیٹواتحادی تھا لیکن جب یہ ضرورت پوری ہو گئی تو امریکہ نے افغان جنگ پاکستان کے گلے ڈال کر بھارت سے دوستی گانٹھ لی اور بھارت کو فطری اتحاد ی بنا لیا۔پھر 2011میں امریکہ نے پاکستان کی خودمختاری کو روندتے ہوئے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کیخلاف اپریشن کر کے پوری دنیا میں ہمیں بے عزت کیا۔
فنانشل ٹائمز نے پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا :’’پاکستان نے امریکہ سے دوری کا اسوقت سوچا جب 1965کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگا دی اور پھر پاکستان کیلئے کئی ’’ڈپلومیٹک مسائل‘‘ بھی پیدا کئے‘‘۔لہٰذا پاکستان کو چین کی طرف پھرنا پڑا۔چین نے 1980-90 کے درمیان ایٹمی توانائی کے حصول میں پاکستان کی مدد کی اور 30عدد M-IIمیزائل بھی فراہم کئے جو ایٹمی وار ہیڈ لے جا سکتے تھے۔چین اب پاکستان کو ہائی ٹیک ہتھیاروں سمیت A-100راکٹ لانچر زHQ-15ائیر ڈیفنس میزائل سسٹم دے چکا ہے اور M-4ٹینک اب پاکستان میں ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ 2015میں پاکستان نے چین کی مدد سے ڈرونز بھی تیار کئے جو افغان بارڈر پر استعمال کئے گئے ۔پاکستان کئی دفعہ امریکہ سے دھوکا کھا چکا ہے۔لہٰذا متبادل ذریعہ اختیار کرنا پاکستان کی مجبوری ہے۔ہم اپنی سلامتی دائو پر نہیں لگا سکتے۔ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا جانا مومن کی شان کے خلاف ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024