کیا حصول پاکستان کے مقاصد حاصل کئے جاسکے؟
برصغیر ہند پر برطانیہ قابض تھا اور اس کے خلاف quit Indiaتحریک جاری تھی کہ 23مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں جہاں اب مینار پاکستان واقع ہے ،ایک جلسے میں قرارداد لاہور منظور ہوگئی جس میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ سامنے آگیا جس کی وجہ مسلمانوں کے خلاف ہندو دشمنی تھی جوبہت واضح ہوکر سامنے آچکی تھی۔اگر ہندوستان ایک وحدت کے طور پر آزاد ہوا تو اس صورت میں وہاں ہندو غالب اکثریت مسلمانوں کے ساتھ جوظلم روا رکھے گی ، اس کا اندازہ سب کو ہوچکا تھا۔جب یہ قرارداد منظور ہوئی ، پاکستان کا نام سامنے نہیں آیا تھا۔اس سے قبل ایک الگ ریاست کا تصور علامہ اقبال نے دیا تھا۔ان کی وفات 1938میں ہوچکی تھی۔علامہ اقبال نے1930میں اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک اسلامی ریاست قائم ہوگی۔ایک ویژنری کی حیثیت سے انہوں نے یہforeseeکیا تھا ۔پہلی مرتبہ اس موقع پر مسلمانوں کے لئے ایک الگ خطے کی بات سامنے آئی تھی۔اسی وجہ سے علامہ اقبال کو مصور پاکستان کہا جاتا ہے۔اسی کے نتیجے میں 1940ء میںمنظور ہونے والی اس قراردا د میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست ہونی چاہیئے۔مسلمان ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔یہاں سے مسلم لیگ تحریکی دور میں داخل ہوئی جو تحریک پاکستان کا نقطۂ آغاز بن گیا۔قائد اعظم کا تصور پاکستان کے بارے میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کا تھا۔اس وقت جو سب سے بڑی ڈنڈی سیکولر خیالات کے حامل طبقے کی جانب سے ماری جارہی ہے جن کی مضبوط لابی حرکت میں ہے ۔حکومتی سطح پر انہیں سپورٹ حاصل ہے کیونکہ ہماری حکومت میں جن کے ہاتھوں میں زمام کار ہے وہ خود انتہائی سیکولر ہوچکے ہیں اور قائد اعظم کے ریاست کے اس تصور کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھنائونے عزائم کو ناکام بنائے۔ قائد اعظم کی سوسے زیادہ تقاریر ریکارڈ پر ہیں لیکن انہوں نے اپنی مطلب براری کے لئے 11اگست ، 1947ء کی تقریر پر ڈیرہ جمالیا ہے جس میں انہیں سیکولرزم کی جھلک نظر آتی ہے ۔بقیہ تمام تقاریر میں قائد اعظم نے اسلام اور اس کے نظام عدل اجتماعی کی بات کی تھی۔انہوں نے خود خلافت راشدہ کا لفظ استعمال کیا تھا۔لیکن آج ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔حالانکہ غیر منقسم ہندوستان میں نماز روزے کی ادائیگی پر کوئی پابندی نہیں تھی۔اسی تناظر میں وہاں کے مولویوں کی محدود سوچ کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ؎ ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد ۔وہاں نظام تو فرنگیوں کا چل رہا تھا۔قوانین ا ن کے نافذ تھے۔اسلامی نظام معاشرت ،سیاست اور معیشت وہاں کب رائج تھا ؟قائد اعظم نے پاکستان کا جو تصور دیا تھاوہ ان کی تمام تقریروں سے ظاہر ہے۔افسوس کی بات ہے کہ قائد اعظم کے اس تصور کو عام نہیں کیا جارہا ہے۔ہمارے نظام تعلیم سے بھی نظریہ ٔ ُ پاکستان کو خارج کیا جارہا ہے۔ہر سطح پر سیکولر سوچ مسلط کرنے کی کوشش جارہی ہے۔
پاکستان کے قیام کی منزل ایک نمونے کی اسلامی ریاست قائم کرنا تھی اس کے لئے قائد اعظم نے نظام خلافت کا حوالہ دیا تھا۔ڈاکٹر ریاض علی شاہ جو قائد اعظم کے معالج کی حیثیت سے کوئٹہ میں موجود تھے،ان کی گواہی ہے۔معالجین کی ٹیم نے قائد اعظم سے یہ بات سنی تھی۔قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ تمہیں اندازہ نہیں کہ مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے جب سوچتا ہوں کہ پاکستان بن گیا۔یہ اللہ کی غیبی تائید اور رسول اللہ ﷺ کے فیضان کے بغیر ممکن نہ تھااوراب جبکہ پاکستان بن گیا ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ یہاں نظام خلافت راشدہ قائم کریں ۔ان کا اشارہ اس طرف تھا جب بنوامیہ کا دور حکمرانی تھا اور اس پر شہنشاہیت کی پرچھائیاں آگئی تھیں۔خلافت کا نظام باقی نہیں رہا تھا۔عباسی دور حکمرانی میں نچلی سطح پر شریعت قائم تھی لیکن ملوکیت جاری تھی اور بادشاہ کا بیٹا بادشاہ بنتا تھا ۔قائد اعظم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ مسلمانوں کو حقیقی خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنا چاہیئے۔تاکہ یہ ریاست پوری دنیا کے سامنے اسلام کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی عدل کا نمونہ آجائے۔ان کی بات کا مطلب یہ تھا کہ جب تک ہندوستان میں اکٹھے تھے تو وہاں ہندو اکثریت میں تھے۔اب جبکہ پاکستان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے تو اللہ کے دین کو یہاں نافذکرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟مسلمانوں کو چاہیئے کہ یہاں فوری طور پر اللہ کے دین کو قائم و نافذ کریں۔آج پاکستان جس ذلت و خواری سے دوچار ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے یہ کام نہیں کیا۔معاشی طور ہم غلام ،سیاسی طور پرانتہائی عدم استحکام کا شکار ہیں ۔ آدھا ملک ہم گنواچکے ہیں۔ اپنے بدترین دشمن سے شکست کا داغ ہمارے ماتھے پر لگا ہوا ہے لیکن پھر بھی ہم سبق حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں۔قیام پاکستان کے وقت اگر ہم نے اللہ سے وعدہ نہ کیا ہوتا تب بھی اگر مسلمان کو کہیں اقتدار حاصل ہو اور اللہ کے دین کو قائم نہ کریں تو اللہ کے مجرم اور باغی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خطہ معجزانہ طور پر عطا کیا تھا ورنہ ہم ہندوؤں کی غلامی میں پس رہے ہوتے ۔ہمیں تو شکرانے کے طور اللہ کے دین کو یہاں فوری طور پر قائم ونافذ کرنا چاہیئے تھا۔ اب بھی اگر قوم جاگ جائے اور اس کو اپنا اولین ہدف بنالے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت پھر شامل حال ہوسکتی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا ۔اس سے ہمیں اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیئے کہ اللہ کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔وہ قادر مطلق ہے اور ہر شے اس کے اختیار میں ہے۔وہ ہمارا امتحان لے رہا ہے۔اگر ہم یہاں اللہ کا دین قائم و نافذ کردیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔اللہ نے بطور دھمکی یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم نے اللہ سے بیوفائی کی جیسا کہ ہم نے گزشتہ ستر سال سے کررکھی ہے تو پھر میں دیکھوں گا کہ کون میرے مقابلے میںتمہاری مدد کرسکتا ہے۔تم اللہ کے عذاب کی اور اس کے قہر کی زد میں ہوگے اور کوئی تمہیں نہیں بچاسکے گا۔آج ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں۔راستہ بہت واضح ہے۔ ہم سچے مسلمان بن جائیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آئے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس انداز میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین۔