آئو سچ بولیں
جلتی پر تیل ڈالنا‘اردو کامحاورہ ہے‘ یعنی معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے فریقین کواکسانا تاکہ دنگا فساد بڑھے یہی بات پروین شاکر نے کچھ اس طرح کہی ہے۔
کچھ لوگ تو اسی کی روٹی کھاتے ہیں
چاہے ان کا برج کوئی ہو
عقرب ہی لگتے ہیں
سندھ میں بھی ان د نوں عقرب صفت لوگ میدان میں ہیں ڈومیڈیکل کالج کا وہ ڈاکٹر جس نے جونیئرکو سندھی بولنے سے منع کیا تھا۔ سندھ یونیورسٹی میں صرف انگریزی اور سندھی کے سائن بورڈز والا نوٹی فیکیشن اور انور مقصود کا خاکہ معاملات کو بگاڑ گیا کوئی پوچھے کہ اس سے حاصل کیا ہو ڈاکٹر نے معافی مانگی۔ یونیورسٹی نے متنازعہ نوٹی فی کیشن واپس لے لیا اور انور مقصود نے بھی معذرت کرلی لیکن اس دوران جو زہراگلاگیا بات ان شخصیات کی حد تک رہتی تو بھی درست ہوتا یہاںتو فیس بک کی غیرت بریگیڈ نے لعن طعن کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ صالح محمد ابراہیم‘ شیر محمد کھاوڑ اور کئی ایک احباب نے صبر کرنے‘ معاملات کو اس کے حقیقی تنائو میں دیکھنے کی بات کی مگر جب اشتعال نقطہ ابال کو پہنچا ہوتو ایسی تلقین سب کوگراں گذرتی ہے کوئی نہیں سوچتا کہ47ء کے فسادات ہوں یا لسانی بل کے بعد کی صورتحال یا پھر88ء کی قتل وغارت گری ‘ کس نے کیا پایا؟ 30 ستمبرکو حیدرآباد کی سڑکوں پرخون کی ہولی کھیلی گئی اگلے روز کراچی لہو رنگ ہوا۔ معصوم جانیں‘ بے گناہ لوگ درندگی کی بھینٹ چڑھے۔
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
فیض نے دورہ بنگلہ دیش سے واپسی پر بصورت نظم تاثرات رقم کئے لیکن اس وقت جب کچھ نہیں ہوسکتا تھا اس بار سندھ میں جس طرح صوبے کے حقیقی باشندوں اور فطری اتحادیوں کو مدمقابل لایا جارہا ہے وہ طے شدہ حکمت عملی کا شاخسانہ لگتا ہے کیا ہم نے خیبر پی کے‘ بلوچستان اورگلگت بلتستان سے سبق نہیں سیکھا۔ جہاں ایک ہی جگہ رہنے والوں کوعقیدے‘ زبان اور دیگر تضادات نے صف آراء کردیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ تباہی‘ بربادی‘ کچھ لوگ بضد ہیں کہ یہ طے شدہ اسکرپٹ ہے ‘ کردار‘ دیانت داری کے ساتھ مکالمے ادا کررہے ہیں یہ سوچ کر کہ
گری تھی جس پر کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
73ئ‘88ء کے خون آشام ایام کون بھلاپائے گا جب ایک طرف خسرو‘دوسری سمت بھٹائی نشانہ بنا۔
بلاشبہ کراچی سندھ کا حصہ ہے اور رہے گا لیکن اس شہر کے مسائل حل کرنے کیلئے کوششیں شروع ہوئیں تو اسے نیویارک اور لاہور بنانے کے دعوے سامنے آئے خدارا اسے کراچی ہی رہنے دیں نئے صوبوں کی تشکیل آسان کام نہیں اس کے لئے صوبائی اسبملی سے قرارداد کی منظوری پہلی شرط ہے پھر یہ بھی کہ ایسا کیوں؟ اپنے اکابر کی دور اندیشی کو سامنے کیوں نہیں رکھا جارہا جنہوں نے 70ء میںکراچی کو وفاق کے زیر انتظام رکھنے یا علیحدہ صوبائی حیثیت دینے کی مخالفت کی تھی حالانکہ اس وقت پیر علی محمد راشدی سمیت بعض لیڈر اس کے حامی نہ تھے بات صرف سوچنے کی نہیں سمجھنے کی بھی ہے کہ جب مفاہمت کی فضا جنم لینے کی کوششیں شروع ہوتی ہیں بعض لوگ لسانیت علاقائیت‘ مسلک‘ مذہب یادیگر ایشوز پر تقسیم کافرسودہ راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں چند لوگ‘ محض چند لوگ پورے ماحول کو آلودہ کرنے کا مشن لیکر میدان میں آجاتے ہیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کی ذمہ داری سنبھال لیتے ہیں۔ سائیں جی ایم سید سے منسوب ہے اور امتیاز فاران راوی کہ’’ درگاہ لطیف میں پیدا ہونے والا اگر سندھ کے مفادات اور حقوق کی بات نہ کرے اس سے عزیز آباد میں پیدا ہونے والا بہتر ہے جو سندھ کے لئے قربانی دے‘‘۔ واحد آریسر نے کہا تھا کہ مجھے کوئی فرشتہ بھی آکر کہے کہ سندھی مہاجر تضاد میں صوبہ کا مفاد ہے تو میں اسے مسترد کردوں گا جب بشیر قریشی شہید پر عائشہ باوانی کالج کے قریب قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے اسے شہری دیہی تصادم بننے سے روکا تھا۔ شہری سرمایہ دار ہو یا دیہی جاگیر دار دونوں کا مفاد آبادی کے طبقات کے صف آرا ہونے میں ہے۔جب شاہ پورچاکر سے کراچی سیٹل ہوجانے والے راجہ کا کیپوٹہ کو سندھڑی چوک‘ وچہ شاہ کا مزار اور راجہ میل کی کو ک یاد آتی ہے تو دہلی‘ لکھنو اوردکن سے آنے والوں کو بھی اپنا گھر یاد آئے گا مقابر اور تفریح گاہیں بے چین کریں گی یہی بات نور الہدیٰ شاہ نے ایک انٹرویو میں تسلیم کی تھی اس وقت ضرورت نفرتوں کے پرچار کی نہیں محبتوں کے اظہار کی ہے۔ زبانیں محبت سکھاتی ہیں سندھ دوستی محض دعویٰ نہیں ہونا چاہئے۔ شہری قیادت ہو یا دیہی عام آدمی کے مسائل کی بات کریں انہیں حل کرنے کا سوچیں ورنہ سب اکارت ہے۔
تقسیم سندھ کا نعر ہ چند افراد کی خواہش ہوسکتی ہے صوبے کے طول و عرض میں آباد اردو اسپیکنگ کا مطالبہ نہیں حرف آخر یہ کہ’’ہم اکھٹے کیوں نہیں رہ سکتے‘‘۔