سرائیکی صوبے کا قیام
پاکستان کے چار صوبے پنجاب ،سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ ہیں ۔ان میں آبادی اور وسائل کے حساب سے پنجاب سب سے بڑا ہے۔اس کے حجم کو دیکھ کر آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ پنجاب کو دو یا تین صوبوں میں تقسیم کردیا جائے جس سے وفاق اور ملک مضبوط ہوگا اور عوام کو آسانیاں میسر آئیں گی۔ پنجاب کے جنوبی حصے میں تین انتظامی ڈویژن ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان آتے ہیں یہاں کے عوام اور سیاستدان حب الوطنی میںکسی سے کم نہیں ہے یہاں چند ایک بڑے بڑے جاگیر دار ہیں آبادی کا غالب ترین حصہ غریب غربامحنت کش مزدوروں ، کھیت مزارین اور چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرنے والوں پر مشتمل ہے جبکہ متوسط طبقہ بہت کم ہے ۔سرائیکی جیسی میٹھی زبان بولی جاتی ہے لوگ بڑے صابر اور شاکر قسم کے ہیں یہاں کے عوام کا رہن سہن شمالی پنجاب کے لوگوں سے ذرا مختلف ہے ۔قائد مسلم لیگ اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کے علاوہ اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیںانہوں نے اس علاقے کو اپ لفٹ کرنے ، ترقی یافتہ بنانے اورعوام کی اقتصادی حالت بہترکرنے کیلئے کچھ خاص کام نہیں کیا۔ روزگار کے مواقع بہت کم ہیں کئی لاکھ سرائیکی مختلف شہروں میں خاص طور پر کراچی میں محنت مزدوری کرکے گزر اوقات کرتے ہیں ۔ غربت اور احساس محرومی زیادہ پایا جاتا ہے ۔
بہرحال غربت اور بیروزگاری ضرور ہے یہاں کے معروف جاگیردار سیاستدان اور دانشور طبقہ اس کا علاج علیحدہ صوبے کے قیام میں دیکھتے ہیں ۔آبادی کا زیادہ تر حصہ بھی اس سے متفق نظر آتا ہے۔30-40سال سے سرائیکی صوبے کے نام سے نیمے درو ںنیمے بروں تحریک چل رہی ہے ایسی تحریکیں سندھ میں کراچی صوبہ خیبرپختونخواہ میں ہزارہ صوبہ اور بلوچستان میں پشتون صوبہ کے نام سے موجود ہیں ۔لیکن وہاں زبردست مخالفت بھی پائی جاتی ہے۔جبکہ’’ جنوبی پنجاب ‘‘کے صوبے کے نام کی مخالفت کی کوئی تحریک نہیں ہے ۔بلکہ سب حامی ہیں ۔اس کا احساس کرتے ہوئے 2008ء کی پنجاب اسمبلی نے اپنے آخری سال میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ اور عوامی رہنما میاں شہباز شریف کی سربراہی میں بہاولپور اور جنوبی صوبے کے نام سے دو صوبے بنانے کیلئے ضروری قرارداد پاس کرکے بنیادی اینٹ رکھ دی ہے ۔اور قانونی ضرورت پوری کرنے میں پہل کردی ہے ۔سینیٹ نے بھی اس قرارداد کو منظور کرلیا ہے ۔2013ء کے الیکشن ہوئے پیپلز پارٹی نے سرائیکی صوبے کے نام پر اور مسلم لیگ نے خوشحالی تعمیر و ترقی اور عوام کو ضروری سہولتیں پہنچانے کے ایجنڈے پر الیکشن لڑے ۔ عوام نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تقریباً سب نشستوں پر مسلم لیگ کے نمائندوں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ مسلم لیگ نے اپنے الیکشن منشور پر 100%عمل کر کے دکھایا ۔گزشتہ دوتین سال سے پنجاب کے بجٹ کا تقریباً 35%سے زائد بجٹ اس علاقے کی خوشحالی کیلئے اور تعمیر و ترقی منصوبوں پر خرچ کرکے یہاں کی غربت اور احساس محرومی کو تقریباً50%کم کردیا ہے بقیہ 50%اگلے پانچ سالوں میں پنجاب کے بجٹ کا خطیر حصہ یہاں کے عوامی فلا ح وبہبود کے منصوبوں کو مکمل کرنے پر خرچ کیا جائے گا۔جس سے یہ علاقہ شمال پنجاب کے برابر آ جائے گا۔ یہ سب ترقیاتی اور فلاح و بہبود کے کام میاں صاحب اس علاقے کے معززین اور عوامی سیاسی رہنمائوں کے اشراک سے کئے۔اسلئے زیادہ تر سیاستدان اور عوام مطمئن اور خوش ہیں ۔ایک ہفتہ عشرہ پہلے یہاں کے چند سیاستدانوں نے مسلم لیگ چھوڑ کر آئندہ الیکشن لڑنے کیلئے ’’جنوبی صوبہ ‘‘ محاذ بنالیا۔ جس کاکو ئی جواز نہیں ہے ۔یہ حضرات کل تک وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے دستِ ِوبازو بنے رہے اور مطمئن رہے جبکہ یہاں کے سیاسی رہنمائوں کی بڑی اکثریت اب بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہے وہ میاں شہباز شریف کی قیادت میں متحد ہیں ۔یہاں کے جانے والے اور باقی رہ جانے والے سب سیاستدان گزشتہ پانچ سال سے خاموش بیٹھے رہے ۔انہوں نے کبھی بھی نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی قرارداد اسمبلی میں پیش کی اب اچانک چھلانگ مار کر الگ ہو گئے ہیں ۔ایسی تاریخی پارٹی سے الگ ہونا مناسب نہیں ہے ۔ابھی دیر نہیں ہوئی ہے صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے مسلم لیگ ان کی اپنی پارٹی ہے یہ واپس آ جائیں کیونکہ لیگ میں کوئی بھی ان کا یا نئے صوبے کا مخالف نہیں ہے۔ انکو مسلم لیگی خوش آمدید کہیں گے ۔یہ سیاسی رہنما انکو اپنا تعاون دیں اوران کے تعاون سے صوبہ بنائیں ۔قومی اسمبلی میں سے قرارداد پاس کرائیں اور ضروری کارروائی مکمل کرکے صوبہ لیکرواپس جائیں۔ یہ کام مسلم لیگ آج بھی کرے گی اور کل بھی الیکشن جیتنے کے بعد مسلم لیگ ہی کرے گی ۔اسلئے دانشمندی اور سمجھداری کا ثبوت دیکر علاقے کی عوام کو اور سارے ملک کو خوشخبری سنائیں۔