”پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ“ ایکٹ پاکستان کی تاریخ کا ایسا قانون ہے جس نے ملازمت کرنے والی خواتین کو بااعتماد بنایا ہے۔اس قانون کا مقصد خواتین کو دوران ملازمت ان کے کام کی جگہوں پر تحفظ فراہم کرنا ہے۔ابھی تک کچھ مسائل ضرور حل طلب تھے جس وجہ سے اس قانون کو بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔یہ ایک ایسا قانون ہے جس نے خواتین کو اعتماد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔بہت ساری خواتین اسی ڈر سے گھر بیٹھ جاتی تھیں کہ انہیں کام کی جگہوں پرمختلف حربوں سے ہراساں کیا جاتا تھا،بعض اوقات تو والدین یا شوہر یہ بات سوچ کر گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے تھے کہ کام کی جگہوں پر خواتین کیلئے ماحول سازگار نہیں ہوتا۔لیکن اس قانون نے ایسے خدشات کو دور کر دیا ہے۔ اس ضمن میں سال 2013 میں پہلی مرتبہ خاتون صوبائی محتسب کا تقرر عمل میں لایا گیا۔میرا فلیبوس پہلی خاتون صوبائی محتسب تھیں اور انہوں نے اپنی ذمہ اریوں کو بھی بخوبی نبھایا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ”مسز فرخندہ وسیم افضل“ حال ہی میں اس عہدے پر تعنیات ہوئیںہیں۔ مسز فرخندہ وسیم افضل نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروسز سے 1978ءمیں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا،جب وفاقی سطح پر ملک میں پہلی مرتبہ 1983ءمیں وفاقی محتسبِ اعلیٰ کا ادارہ قائم کیا گیا جس میںجسٹس (ر) سردار اقبال پہلے وفاقی محتسب مقرر ہوئے ان کی ٹیم میں مسز فرخندہ وسیم افضل کو بھی شامل کیا گیا ان کے ساتھ 87ءتک کام کیا اس کے بعد پنجاب گورنمنٹ کے مختلف ڈیپارٹمنسٹس میں ایڈیشنل سیکرٹری اور سیکرٹری کے عہدوں پر فائز رہیں۔مارچ2014ءمیں ڈائریکٹر جنرل سول سروسز اکیڈمی سے 22ویں گریڈ سے ریٹائرڈ ہوئی ہیں۔حال ہی میںانہیں خاتون محتسب مقرر کیا گیا ہے۔گزشتہ دنوں ہم نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا۔جس میںکی گئیں باتیں نذر قارئین ہیں۔
نوائے وقت:ہراساں کیے جانے کیخلاف بنے قانون کی افادیت بارے کیا کہتی ہیں؟
فرخندہ وسیم افضل:خواتین ہمارے معاشرے کا پچاس فیصد سے بھی زائد حصہ ہیں اورمیںیہ بات فخر سے کہتی ہوں کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ مختلف اداروں میں کام کر رہی ہیں۔ جب اتنی تعداد میںہر جگہ خواتین کام کر رہی ہوں تو ایسے میں ایسا قانون بننا ضروری تھا۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ نہ صرف یہ قانون بنا بلکہ اس کے عملی نفاذ کےلئے پورے ایک ادارے کا قیام عمل میںلایا گیا اور یہ ہی اس قانون کی افادیت ہے۔
نوائے وقت:ہراساں کیے جانے کا مسئلہ آپ کی نظر میں ہے کیا ؟
فرخندہ وسیم افضل:کوئی بھی ناپسندیدہ جنسی پیشگی، جنسی طور پر کوئی مدد مانگنا یا دیگر جنسی نوعیت کے جسمانی طرز عمل یا جنسی طور پر زبانی یا تحریری مواصلات ، نیچا دکھانے والے رویے، دھمکی آمیز یا ناشائستہ کام کے ماحول کی تشکیل ، شکایت کنندہ کو انکار کی صورت میں سزا دینے کی کوشش کرنا یہ سب ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔اس حوالے سے بنا قانون تمام سرکاری و نجی اداروں پر لاگو ہوتا ہے۔اس قانون کے تحت خواتین کو ہراساں کرنا ایک جرم ہے۔اس ایکٹ کے تحت شکایات موصول ہونے پر ادارے کو تیس دن کے اندرتین ممبران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینی ہوتی ہے جس میں سے ایک خاتون ہوتی ہے۔ اس کی مختلف سزائیں بھی ہیں جیسا کہ مخصوص عرصے کیلئے انکریمنٹ روک دینا، عہدے سے ہٹا کر اس سے نچلے درجے کا عہدہ دینا،ریٹائر کر دینا،نوکری سے ہٹا دینا، جرمانہ کرنا۔یہ سب چیزیں ہراسمنٹ کے ایشو میں ہی آتی ہیں۔
نوائے وقت:آپ کے ادارے نے تیس روز کے اندر انکوائری پوری کرنی ہوتی ہے اس کےلئے آپ سمجھتی ہیںکہ آپ کے پاس سٹاف اور ذرائع کافی ہے؟
فرخندہ وسیم افضل:میرے پاس تین آفیسرز اور تھوڑا سا کلیریکل سٹاف ہے جو خاصا کام کا ہے۔ کام کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے کےلئے مزید سٹاف کی ضرورت توہے۔
نوائے وقت:اپنے ادارے کی صلاحیتیں بڑھانے کےلئے آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں؟
فرخندہ وسیم افضل:ابھی تو اس عہدے کا چارج سنبھالے تھوڑے ہی دن گزرے ہیں، اس قانون کے دائرہ اختیار کو سمجھ رہی ہوں رولز کے علاوہ یہ دیکھ رہی ہوں کہ پہلے کیا کام ہوا، کتنے کیسز درج ہوئے ،کتنے کیسز کے فیصلے ہوئے اورکتنوں پر عمل در آمد ہوا۔
نوائے وقت:دوردرزا کے علاقوںسے تعلق رکھنے والی خواتین کو متعلقہ اضلاع میں سہولتیں فراہم کرنے کےلئے محتسب کے زیر اہتمام برانچ آفس قائم کرنے کے کس حد تک احکامات ہو سکتے ہیں؟
فرخندہ وسیم افضل:جن خواتین کو محتسب کے دفتر میں اپنے علاقوں سے آنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی سہولت کے لئے محتسب یا اس کا آفیسر خود جا کر وہاں کارروائی کر سکتا ہے۔باقی ابھی برانچز تو نہیں بنائیں گئیں لیکن بہت سارے معاملات لائن اپ ضرور ہیں۔
نوائے وقت:ابھی تک جن شکایات پر فیصلے ہو چکے ہیں اس پر کس حد تک عملدرآمد ہوا ہے؟
فرخندہ وسیم افضل:جیسا کہ میںنے بتایا ہے کہ چند روز قبل ہی میں نے چارج سنبھالا ہے ابھی میں دیکھ رہی ہوں کہ کیسز اور فیصلوں پر عمل در آمد کی کیا صورتحال ہے۔
نوائے وقت:آپ کا ادارہ لوگوں کو آگہی فراہم کرنے کے معاملے میں کس حد تک کامیاب ہے اور اس ادارے کو مزید کس طرح فعال بنایا جا سکتا ہے ؟
فرخندہ وسیم افضل:میںسمجھتی ہوں کہ ٹی وی پر اس قانون کی آگاہی کے حوالے سے نہ صرف اشتہارات چل رہے ہیں بلکہ دیگر ذرائع بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔اس کے باوجود مزید بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔باقی دور دراز کے علاقوں میں لوگوں کو اس قانون کے بارے میں شعور دینے کے حوالے سے دو سال پر محیط پلان بن چکا ہے اس پر عملدرآمد تیزی سے جاری ہے۔
نوائے وقت:جن اداروں میں ابھی تک اس ضمن میں کمیٹیاں تشکیل نہیں دی گئیںاس حوالے سے کیا کہتی ہیں؟
فرخندہ وسیم افضل:جن نجی اداروں سے ہمیں ایسی شکایات موصول ہوں گی ان کو نمونہ بنا کر ہم چیمبر آف کامرس اور سیکرٹری انڈیسٹریز کو ایسے اداروں کے اعدادوشمار مہیا کرنے کی ہدایت کریں گے تاکہ محتسب کے ادارے کی طرف سے ان اعدادوشمار کی روشنی میں ایسے ملازمین سے شکایات کے سلسلے میں از خود بھی رابطہ کیا جا سکے۔
نوائے وقت:آپ کے حساب سے اس قانون کے تحت خواتین کو کتنا تحفظ مل سکا ہے ؟
فرخندہ وسیم افضل :آپ دیکھیں کہ اب اگر کسی بھی خاتون کو اپنے آفس میں ہراسمنٹ کا سامنا ہوتا ہے تو ابتدائی سطح پر وہ اپنے ہی ادارے میں اس ضمن میں بنائی گئی کمیٹی کو شکایت درج کرواسکتی ہے اس کے بعد وہ کمیٹی تمام معاملے کی تحقیقات کرکے اپنا فیصلہ دیتی ہے۔اگر وہ اس کمیٹی کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتی تو اس صورت میں وہ خاتون ہمارے دفتر میں آکر ہماری کمیٹی کو اپنی شکایت درج کرواتی ہے اس کے بعد ہماری کمیٹی تمام معاملے کی انکوائری کرکے فیصلہ دیتی ہے ۔چونکہ کسی بھی فورم پر پسند نا پسند گروپنگ دھونس دھاندلی ہو سکتی ہے ، تحقیقات اور تفتیش پر بااثر افراد اثرانداز ہو سکتے ہیں اس خدشے کے پیش نظر قانون میں یہ شق رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی خاتون ادارے کی کمیٹی کی رپورٹ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ہمارے پاس آجائے ۔اس کا مقصد صرف اور صرف کاروائی کو صاف اور شفاف بنانا اور مسائل کو ختم کرنا ہے۔اگر اس کمیٹی کے فیصلے سے بھی مطمئن نہ ہو تو وہ خاتون ہماری کمیٹی کے فیصلے کے خلاف گورنر کے پاس اپیل کےلئے جاتی ہے۔ گورنر تمام معاملے کی تحقیقات کروانے کے بعد فیصلہ دیں گے۔یہ سارا مرحلہ تحفظ کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
نوائے وقت:اگر کوئی لڑکی آپ کے آفس میں آکر یہ شکایت درج کروائے کہ آفس کی کمیٹی نے جانبداری سے کام لیا ہے تو ایسے میںکس قسم کی کاروائی کی جا سکتی ہے؟
فرخندہ وسیم افضل:اگر کسی کیس کی تحقیقات انصاف مبنی نہیں ہیں تو پھر ہماری کمیٹی انکوائری کرے گی اور اس ادارے کی کمیٹی کی تفتیش یا تحقیقات میں جانبداری نظر آئی تو یقیناً ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
نوائے وقت:آج کی خاتون کو کہاں دیکھتی ہیں؟
فرخندہ وسیم افضل:میں سمجھتی ہوں کہ خواتین نے مشکلات کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ہر دور میںاس کو چیلنجز کا سامنا رہا ہے قدم قدم پر معاشرتی رویوں کا سامنا رہا ہے آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے تاہم حالات تبدیل ہو رہے ہیں خواتین ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کےلئے تیار ہیں۔باقی پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ ایکٹ کے تحت ہم کام کرنے والی جگہوں پر مسائل کا سامنا کرنے والی خواتین کے ساتھ کھڑے ہیںجن خواتین کو جو بھی مسائل ہیں وہ ہمارے دفتر آئیں اور ہمارے ساتھ شئیر کریں ۔