نظریہ پاکستان ٹرسٹ گزشتہ بیس سال سے بھی زیادہ آبروئے صحافت سالار قافلہ استحکام پاکستان، نونہالان و نوجوانان ملت کی نظریاتی رہنمائی کیلئے خدمات سر انجام دے رہا ہے اس سلسلہ میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی زیر ہدایت 23 مارچ 2014ء سے 23 مارچ 2015تک ’’قرار داد پاکستان پلاٹینیم جوبلی‘‘ منانے کا فیصلہ ہوا ہے جس کیمطابق آج مشاہیر تحریک قیام پاکستان میں سب سے پہلے جو تقریب منعقد کی گئی ہے وہ ’’حیات و خدمات … شیر بنگال‘‘ کی نسبت سے ہے۔
مولانا فضل الحق 26 اکتوبر 1873ء کو ضلع باریسال مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ عربی اور فارسی کی مروجہ تعلیم گھر اور ضلع باریسال کے سکول سے حاصل کی۔ 1893ء میں پریذیڈنسی کالج کلکتہ سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ 1895ء میں ایم اے ریاضی اور 2سال بعد یونیورسٹی لاء کالج کلکتہ سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ عملی زندگی کا آغاز 1900ء میں بحیثیت وکیل کیا۔ 1906ء میں ڈپٹی مجسٹریٹ مقرر ہوئے۔ 1911ء میں تنیسخ تقسیم بنگال کے موقع پر بطور احتجاج استعفی دے دیا 1913ء میں پہلی مرتبہ قانون ساز کونسل کی ایک نشست پر ضمنی انتخابات جیت گئے آپ کی صوبائی کونسل میں پہلی تقریر بنگال کے تعلیمی مسائل کے بارے میں تھی۔ 1915ء میں کسانوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے کرشک پروجا پارٹی کو منظم کیا جس میں بنگال کی ممتاز شخصیات میں سے مولانا محمد اکرم خان، خان بہادر، عبداللہ شاہ المومن اور سید بدرالدین قابل ذکر تھے۔ وہ تحریک 1924ء میں کسانوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت اختیار کرگئی۔
آپ شروع ہی سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے مشنری جذبہ رکھتے تھے لہذا آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے کئی تعلیمی اداروں کی ترویج و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1920ء میں اسلامیہ کالج ، ایڈن گرلز کالج ڈھاکہ، زرعی کالج تیج گائوں، فضل الحق کالج ایدینہ ذاتی نگرانی میں بنوائے۔ 1937ء میں بنگال میں حکومت سنبھالنے کے بعد وزارت تعلیم کی ذمہ داری خود قبول کی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی تشکیل کیلئے 1912ء میں نواب سلیم اللہ آف ڈھاکہ نے وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ کو درخواست دی جس نے یونیورسٹی بنانے کی منظوری نہ دی بعد میں آپ کی کوشش سے ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔
مسلمانوں کی تعلیمی مخدوش حالت روز روشن کی طرح عیاں تھی لہذا آپ نے 1924ء میں مسلم ایجوکیشنل فنڈ قائم کیا تاکہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں حائل معاشی مشکلات کا تدراک کیا جا سکے۔ ہندوئوں کے تعصب کا یہ عالم تھا کہ بنگال کے سکولوں میں مسلم طلباء کو فارسی اور عربی کی بجائے سنسکرت پڑھانے پر مجبور کیا جانے لگا بہانہ یہ کیا گیا کہ فارسی اور عربی کے طلباء کی تعداد کم ہے اور اساتذہ کو تنخواہیں نہیں دی جا سکتیں۔ لہذا آپ نے سنسکرت کی تعلیم کو مسلمانوں کیلئے مضر سمجھا اور مسلمان اساتذہ کا تقرر اس فنڈ سے کروایا۔ جنگ عظیم اول کے دوران برصغیر کے سیاسی حالات بھی مخدوش تھے اس وقت 1917ء میں آپ نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی کی صدارت کی اور ترکی کے بارے میں اتحادی ممالک کی مسلم دشمنی سے سخت مضطرب تھے 1919ء میں سانحہ جلیانوالہ باغ امرتسر میں انگریزوں کے بیہمانہ ظلم و ستم سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے جس میں درجنوں مسلمان بھی شہید ہوئے۔ اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے کانگرسی کمیٹی میں گاندھی، سی آر داس، موتی لال نہرو کے علاوہ آپ بھی رکن تھے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا ’’دنیا کی اسلامی مملکتیں یورپی عیسائی حکومتوں کی خود غرضانہ پالیسیوں کا شکار ہوئی ہیں۔ ہم مسلمانوں کیلئے ترکی کی قسمت گہری فکر مندی کا موجب ہے کیونکہ اس سے خلافت اور مقامات مقدسہ کی نگہداشت کا مسئلہ مضبوطی سے وابستہ ہے‘‘۔
مولانا فضل الحق کی خدمات یوں تو بے شمار ہیں لیکن 23 مارچ 1940ء مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں الگ وطن کے حصول کیلئے پیش کردہ قرار داد کا شرف انہی کے حصہ میں آیا۔ جب آپ قرار داد پیش کرنے کیلئے آتے تو لوگوں نے ’’شیر آیا، شیر آیا‘‘ کے نعرہ ہائے تحسین بلند کئے۔ جس کی بدولت آئندہ آپ ’’شیر بنگال‘‘ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ 1937ء میں قائم کانگرسی وزارتوں کے متعصبانہ رویہ کے بارے میں تحقیقات کروا کر ’’اب یا پھر کبھی نہیں ہو گا‘‘ کے عنوان پر اہم رپورٹ شائع کروائی۔ تاکہ مسلمان ہندوئوں کے رویہ کے بارے میں آگاہ ہو سکیں۔
1937ء سے 1943ء بنگال کے وزیر اعظم رہے۔ اس دوران آپ نے مزارعات بنگال کا ترمیمی بل پاس کروا کر زمینداروں کے حقوق کم اور مزارعین کے حقوق کا تحفظ کروایا، پرانے قرضوں کے تصیفہ کا بل منظور کروا کر کاشتکاروں کو ہندو مہاجنوں کو ادا کئے جانیوالے کروڑوں روپے کے سود سے نجات دلوائی۔ آپ نے اپنی ساری زندگی عوامی خدمت اور وطنی سیاست میں گزار دی۔ آپ مشرقی پاکستان کے گورنر بھی رہے۔ آپکی خدمات کی بدولت آپ کا نام اکابرین تحریک قیام پاکستان کیساتھ ساتھ زندہ و تابندہ رہے گا۔ آپ کا 27 اپریل 1962ء کوانتقال ہوا۔
ڈھونڈا تھا جن کو آسمان نے خاک چھان کر
تو نے کہاں وہ چاند کے ٹکڑے چھپا دئیے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38