نظریہ ضرورت ہمیشہ کیلئے دفن
سپریم کورٹ کے جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں واضح طور پر تحریر کر چکی ہے کہ آمروں کے کسی اقدام کی توثیق نہیں کی جائیگی ایسا کرنے کا پارلیمنٹ کو بھی اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج نے بھی ایسا کیا تو ان کیخلاف کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ انصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھا جائیگا۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کر دی۔
پاکستان کے قیام کے بعد اس عظیم مملکت کے 65میں سے 33سال یعنی نصف سے زیادہ عرصہ فوجی حکمرانوں نے ضائع کردیا۔آمریت کا باب ہمیشہ کیلئے بند کرنے کیلئے آج کی عدلیہ بڑی کمٹڈہے ۔اس نے 3نومبر 2007ءکے مشرف کے ایمرجنسی کے نفاذ کے اقدام کو غداری قرار دیا تھا۔ایمرجنسی کے نفاذ سے بھی زیادہ سنگین معاملہ مشرف کا اپنے باوردی ساتھیوں کی معاونت سے بارہ اکتوبر 1999ءکو ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لینا تھا ۔ اس اقدام کو چونکہ سپریم کورٹ نے جائز قرار دیا اور بعد ازاں پارلیمنٹ نے اسکی توثیق کر دی اس لئے وہ باب بند ہوگیا۔مشرف خود ایمرجنسی کے نفاذ کو ماورائے آئین اقدام قرار دے چکے ہیں اس لئے انکے خلاف یہ کیس بھی 12اکتوبر کے آئین شکن اقدام کی طرح مضبوط ہے ۔اس کیس سمیت ہر کیس میں انصاف کے تمام تر تقاضے پورے ہونے چاہئیںتاکہ کسی کو پاکستان کی عدلیہ پر انگلی اُٹھانے کا موقع نہ مل سکے جیسا کہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت اور بعد ازاں جنرل ضیاءالحق اور مشرف کے مارشل لاﺅں کو جائز قرار دینے پر عدلیہ کو تنقید کا سامنا رہا ہے۔اگر عدلیہ ایوبی مارشل لاءکیخلاف بروقت فیصلہ دے دیتی تو نہ صرف پاکستان مزید مارشل لاﺅں سے بچ جاتا بلکہ آج پاکستان کو تاریخ بھی کچھ اور ہی اور بہترین ہوتی۔یہ بھی عدلیہ کا بہترین فیصلہ ہے کہ آمروں کے کسی اقدام کی توثیق نہیں کی جائیگی اس سے یقینا نظریہ ضرورت ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائیگا۔