ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نکتے نے محرم سے مجرم بنا دیا
خبر دینے والے جب خود خبر بن جائیں تو یہی ہوتا ہے۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے یا محض ایک اتفاق کہ کالم تو میں جنرل پرویز مشرف اور مکافات عمل پر لکھ رہی تھی۔ مگر وقت کچھ یوں بدلا کہ اپنے ہی نامہ اعمال کی فکر پڑ گئی ویسے بھی اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ دنیا کے کاموں میں اتنے مت کھو جاو کہ غافل ہو جا¶۔ اور غفلت بھی کوئی معمولی نہیں ایسی غفلت کہ جس نے کھرے اور کھوٹے کو گڈ مڈ کر دیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ حامد میر اور ابصار عالم جیسے جہاندیدہ صحافیوں نے سپریم کورٹ میں جا کر استدعا کی کہ صحافیوں کی صفوں میں شامل چند کالی بھیڑوں کے نام عوام کے سامنے آ شکار کئے جائیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور سچ عوام کے سامنے آ سکے کیونکہ آج کی صحافت میں کھرے اور کھوٹے اس طرح گھل مل چکے ہیں کہ تفریق کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اور عدالت ہی یہ مشکل کام سر انجام دے سکتی ہے کیونکہ آج سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ ہے جس پر پورے پاکستان کو اعتماد ہے۔ اچھے اور برے لوگ تو ہر ادارے میں موجود ہیں چاہے وہ ریلوے ہو، پی آئی اے ہو یا پارلیمنٹ ، اور یہ بھی جانچنا ضروری ہے کہ کون اپنا فرض دیانتداری سے ادا کر رہا ہے اور کون عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو ایک سنسنی پھیل گئی کہ اب جلد ہی میڈیا میں شامل کالی بھیڑوں کے نام آنیوالے ہیں اور اس پر ہم میڈیا والوں نے زور و شور سے پروگرام شروع کر دیئے اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ ان تمام صحافیوں کے نام منظر عام پر لائے جائیں جو اس مقدس پیشے کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ مجھ سمیت تمام اینکرز اور صحافی منتظر تھے کہ جلد ہی وزرات اطلاعات کی وہ خفیہ فہرست منظر عام پر آئیگی جس میں ان صحافیوں کے نام ہونگے جو حکومت سے رقم لے کر انکے حق میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ان تمام سورماوں کے نام ہونگے جو پیسے کے بدلے قلم کی تلوار بیچتے ہیں اور حق کے بجائے باطل کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہم سب جاننا چاہتے تھے وہ نام جو اپنے الفاظ کی حرمت کو فروخت کرتے ہیں ، اپنے پروگرامز میں پیسے پکڑ کر مہمانوں کو بلاتے ہیں ، حکمرانوں کے حق میں کالم لکھتے ہیں۔ مگر جب یہ فہرست سپریم کورٹ نے عام کی تو یہ دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے کہ وزارت اطلاعات نے سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک ایسی فہرست تیار کی جس میں زیادہ تر ان اینکرز اور صحافیوں کے نام شامل کر دیئے جو نہ صرف حکومت کے مقابلے میں سپریم کورٹ کا ساتھ دیتے ہیں بلکہ انکے دامن پرکبھی کوئی داغ بھی نہیں لگا ہے۔ الیکشن سے صرف چند روز قبل وزارت اطلاعات نے نہایت چالاکی سے ان صحافیوں کے نام سپریم کورٹ کو فراہم کر کے ایک طرف تو بدعنوان صحافیوں کو بچا لیا ہے بلکہ سپریم کورٹ کا ساتھ دینے والے صحافیوں کو سپریم کورٹ کے مقابل لا کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں یہ دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئی کہ وزارت اطلاعات نے اس فہرست میں میرا نام بھی ان صحافیوں کیساتھ شامل کر دیا جو مئی 2012 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیساتھ برطانیہ کے دورے پر گئے تھے۔
جبکہ میں وزیراعظم کے ساتھ اس دورے پر نہیں گئی تھی اور اس دوران ٹی وی پر اپنا پروگرام پیش کرتی رہی تھی ، اس دورے میں نہ جانے کی وجوہات پر میں نے ایک کالم بھی تحریر کیا تھا۔ مگر نہ صرف وزارت اطلاعات نے میرا نام شامل کیا بلکہ لاکھوں روپے کے اخراجات بھی اس فہرست میں ظاہر کیے جو مجھ پر خرچ کیے گئے تھے میں جاننا چاہتی ہوں کہ جب میں اس دورے پر گئی ہی نہیں تو میرے نام پر یہ رقم وزارت اطلاعات کے کن افسران نے خرد برد کی ہے۔ اور نہ صرف میں بلکہ معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی منیزے جہانگیر اور کئی ایسے صحافیوں کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جو وزیراعظم کیساتھ دورے پر گئے ہی نہیں تھے۔ وزارت اطلاعات نے کمال ہوشیاری سے نہ صرف اپنے لیے کام کرنیوالے صحافیوں کے نام چھپا لیے بلکہ سپریم کورٹ کے سامنے ایک مشکوک فہرست پیش کر کے نہایت خطرناک کھیل کھیلا ہے تا کہ وہ صحافی جو حکومت کی کرپشن بے نقاب کرنے پر سپریم کورٹ کی حمایت کرتے ہیں انہیں سپریم کورٹ سے بدگمان کر دیا جائے، جب میں اپنا نام غلط طور پر اس فہرست میں شامل ہونے پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئی تو وہاں میں نے کئی معزز صحافی دیکھے جو اس فہرست میں اپنا نام شامل ہونے پر حیران و پریشان کھڑے تھے ، ایک طرف پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت تھے جو حکومت کی جانب سے سلیم شہزاد قتل کیس کیلئے قائم کردہ کمیشن کے رکن تھے اور اس سلسلے میں انہیں لاہور بلوایا جاتا تھا جس کے اخراجات حکومت ادا کرتی تھی ، ان کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا۔ مجھ سمیت تمام لوگ اس فہرست میں غلط انداز میں نام شامل ہونے پر پریشان تھے کیونکہ اس طرح وزارت اطلاعات نے مجھ سمیت ان تمام صحافیوں کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی تھی اور اب ہمیں سب کو اپنی صفائی پیش کرنا پڑ رہی تھی۔ جبکہ وہ لوگ جن کی فہرست کا ساری قوم کو انتظار تھا اور جو وزارت اطلاعات کے پے رول پر ہیں اور بڑی بھاری رقم لے کر اپنا ضمیر بیچتے ہیں وہ اطمینان سے بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔
عدالت عالیہ میں افتخار احمد اور روف کلاسرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے ملاقات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمی اب یہ واضح کرے کہ صحافیوں کا اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور کوریج کیلئے غیر ملکی دوروںپر جانا غیر آئینی ہے۔ عدالت نے اس پر کہا کہ صحافیوں کے غیر ملکی دورے غیرآئینی نہیں ہیں مگر اس معاملے کو عوام کے سامنے رکھا جائے ، اس پرسلمان اکرام راجہ نے عدالت سے درخواست کی کہ وزارت اطلاعات سے پچھلے پانچ سال کا مکمل ریکارڈ طلب کیا جائے تا کہ واضح ہو کہ سرکاری دوروں پر کوریج کیلئے جانا صحافیوں کیلئے ایک روٹین کی بات ہے۔ برطانیہ میں اپنے صحافتی کیئریر کے دوران میں نے کبھی سرکاری دورے تو نہیں کئے مگر ٹریننگ کورسز کے مواقع بارہا ملے، مجھے اسٹریٹفورڈ یونیورسٹی کے تحت اسکرپٹ رائٹنگ کورس کرنے کا موقع ملا جس میں ہالی ووڈ کی معروف مصنفہ کلارا آرمنڈ کی شاگردی کا اعزاز بھی حاصل ہوا اسی طرح آر آئی ایف کی جانب سے وار ٹریننگ کورس بھی کیا جس کا تجربہ عملی زندگی میں بہت کام آیا۔ مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ کچھ صحافی ان دوروں کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور واپسی پر حکومت کے حق میں لکھتے ہیں تا کہ اگلے دورے میں شرکت یقینی بنائی جا سکے یہ بات پاکستان میں اپنے صحافتی سفر کے آغاز میں ہی ایک دو غلطیوں کے بعد میری سمجھ میں آ گئی تھی۔ میں اگرچہ لندن سرکاری دورے پر نہیں گئی تھی پھر بھی وہاں جانے والوں کو نام اس فہرست میں شامل ہونے پر مجھے دکھ ہے کہ کیوں ان لوگوں کا نام بھی صحافت کی کالی بھیڑوں کے نام کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ عدالت میں مجھے روف کلاسرا کو دیکھ کر بھی دکھ ہوا کہ جو صحافی حکومت کی کرپشن بے نقاب اور بری کارکردگی پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں آج انہیں بھی عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے آنا پڑا۔ افتخار احمد سے جب میری فون پر بات ہوئی تو وہ بھی بہت دل گرفتہ سے لگے۔ صحافت میں آنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں سچائی سے پیار ہوتا ہے اور جب دل و جان لگا کر حق اور سچ کو سامنے لانے والوں پر ہی جھوٹے الزام لگائیں جائیں اور انکی عزت پر حرف آئے تو انکے دلوں کا جو حال ہوتا ہے وہی ہم سب کا حال ہوا ہے، ہم سب ٹوٹے ہوئے دل کیساتھ عدالت مں موجود تھے۔ میں نے وزارت اطلاعات کے سیکرٹری آغا ندیم کو خط لکھ کر وضاحت مانگی ہے کہ کس بنیاد پر میرا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ میں اس دورے پر گئی ہی نہیںتھی اور ان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس کے ذمہ داروں کیخلاف نہ صرف کارروائی کی جائے بلکہ وزارت اطلاعات اس فاش غلطی پر مجھ سے تحریری معذرت بھی کرے۔ اگر یہ فہرست وزارت اطلاعات کی ویب سائٹ پر ہوتی تو شاید ہمیں دکھ نہ ہوتا کیونکہ منسٹری آف انفارمیشن کو تو ہمارے ہاں منسٹری آف ڈس انفارمیشن کہا جاتا ہے کیونکہ نہ اس کی کوئی ساکھ ہے اور نہ کوئی اعتبار ، مگر سپریم کورٹ تو وہ واحد ادارہ ہے جس پر پاکستان کی تمام عوام نہ صرف اعتبار کرتی ہے بلکہ اسے امید کی واحد کرن بھی سمجھتی ہے اس لیے وزارت اطلاعات کی فراہم کردہ ایسی مشکوک فہرست کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ میری سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ اس فہرست کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹایا جائے اور وزارت اطلاعات کی وہ دوسری فہرست جس میں صحافت کی کالی بھیڑوں کے نام شامل ہیں اسے عام کیا جائے تا کہ قوم کے سامنے وہ چہرے بے نقاب ہو سکیں جو عوام کو گمراہ کر رہے ہیں ، اور میری چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ جن لوگوں اور ادارے نے عدالت کو اندھیرے میں رکھا اور ایک مشکوک لسٹ فراہم کر کے سپریم کورٹ جیسے ادارے کی ساکھ کو مجروح کرنے کی سازش کی ہے ان کیخلاف سو موٹو نوٹس لیا جائے اور وزارت اطلاعات نے جن صحافیوں کا نام اس فہرست میں غلط طور پر شامل کیا گیا ہے ان سے معذرت کی جائے تا کہ کھرا اور کھوٹا الگ ہو سکے۔