کوئٹہ میں دو روز ....(آخری قسط)
آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید اللہ خان کا لہجہ محکم تھا۔ بلوچستان کی حکومت کمزور ہے۔ پولیس اور لیویز انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں‘ فوج چھاﺅنیوں کے اندر بند ہے۔ اس خلاءکو ایف سی نے پُر کیا ہے اور شہادتوں کی داستان رقم کی ہے۔ آئی جی ایف سی میڈیا پر برستے رہے۔ میڈیا زمینی حقائق کے برعکس رپورٹنگ کرتا ہے۔ ایف سی کے جوان وطن کی حفاظت اور سالمیت کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں میڈیا ان کو اہمیت نہیں دیتا۔ ایک سینئر صحافی نے تجویز دی کہ آپ آئی ایس پی آر کو فعال اور متحرک بنائیں میڈیا کو جو حقائق فیڈ کیے جائینگے وہی سکرین پر رپورٹ ہونگے۔ آئی جی نے خوشخبری سنائی کہ انتہا پسندوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ آزادی کی جنگ لڑنے والے بلوچ صرف 5 فیصد ہیں جبکہ بلوچستان میں بلوچ 23فیصد، براہوی 25 فیصد ، پشتون 44 فیصد اور دیگر 8 فیصد ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں بسنے والے بلوچ بلوچستان کے بلوچ عوام سے زیادہ ہیں۔ بلوچستان تبدیل ہورہا ہے۔ دس ہزار بلوچ افواج پاکستان کا حصہ بن چکے ہیں۔ افواج پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے پیش نظر تین چھاﺅنیوں کی تعمیر روک دی ہے۔ ایف سی اور افواج پاکستان نے پورے بلوچستان میں معیاری تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جن میں 23322 طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے میڈیکل سینٹر کھولے گئے ہیں۔ بلوچستان کے 4418 طلبہ کو تعلیم کیلئے ہوسٹل اور طعام کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ ترقیاتی اور تعمیراتی کام بھی فوج کی نگرانی میں ہورہے ہیں۔ صحافت کے میجر جنرل مجیب الرحمن شامی نے فوج کے میجر جنرل کو یہ سوال پوچھ کر لاجواب کردیا کہ فوج یہ سب کام کس آئینی اور قانونی اتھارٹی کے تحت کررہی ہے۔
آئی جی نے بتایا کہ بلوچستان میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں ہے۔ بلوچستان کے مخصوص علاقوں میں دہشت گردی کی کاروائیاں ہورہی ہیں جن کا مقابلہ ایف سی کے جوان بڑی بہادری سے کررہے ہیں۔ بیرونی مداخلت کے شواہد موجود ہیں البتہ ایران محتاط ہے وہ نہیں چاہتا کہ بلوچستان عدم استحکام کا شکار ہو اور اسکے اثرات ایران پر مرتب ہوں۔ خفیہ ایجنسیوں کی خبر کیمطابق ایک غیر ملکی شخصیت نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب رئیسانی سے پوچھا کہ اگر بلوچستان آزاد ہوجائے تو بلوچ عوام کیا کرینگے۔ رئیسانی نے جواب دیا پہلے دن کمرے میں بند ہوکر خوب پئیں پلائیں گے اور دوسرے دن چھتوں پر چڑھ کر ایک دوسرے سے لڑیں گے۔ ہزارہ کمیونٹی کے افسوسناک واقعات میں ملوث 7 ملزم گرفتار ہوچکے ہیں اور 4 مقابلے میں مارے گئے۔ ان کا تعلق لشکر جھنگوی سے ہے جس کو بیرونی مالی امداد مل رہی ہے۔ 70 انتہا پسندوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دئیے ہیں کہ ان کو میڈیا کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کو دس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جارہا ہے۔ آئی جی ایف سی نے اپنی بریفنگ میں لاپتہ افراد کا ذکر نہ کیا۔ سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ لاپتہ افراد کے ایشو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے جو فہرست جاری کی ہے وہ بے بنیاد ہے اس میں لاپتہ افراد کے مکمل ایڈریس ہی موجود نہیں ہیں۔ ایف سی کیمطابق لاپتہ افراد کی تعداد صرف 47 ہے۔آئی جی ایف سی کے دعوﺅں کی حقیقت تو 11 مئی تک سامنے آئیگی۔بریفنگ سے یہ تاثر ملا کہ افواج پاکستان کے جرنیل اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل سیاسی ہے۔ صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات سے سیاسی حل کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد اسلم خٹک کمانڈر، ساﺅ درن کمانڈ نے صحافیوں کے اعزاز میں لنچ کا اہتمام کررکھا تھا۔ ان کو ہنگامی طور پر اسلام آباد جانا پڑا ان کی نمائندگی جی او سی میجر جنرل مظہر سلیم نے کی۔ مظہر سلیم روشن اور مطمئن چہرہ شخصیت ہیں انہوں نے بے ساختہ گفتگو کی۔ وہ بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں پر اُمید تھے۔انکے خیال کے مطابق بلوچستان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کیلئے جو منصوبے جاری ہیں انکے مثبت اثرات پانچ سال کے اندر سامنے آئینگے۔ بلوچستان کا احساس محرومی ختم ہوگا اور انتہا پسندی اپنی موت آپ مر جائیگی۔ مظہر سلیم کیمطابق 11 مئی کے انتخابات بھی بلوچستان اور پاکستان کیلئے نیک فال ثابت ہونگے۔
کوئٹہ پریس کلب میں مقامی صحافیوں کیساتھ ملاقات ڈرامائی رہی۔ بلوچ صحافیوں کو ایک درجن پنجابی صحافیوں کے ساتھ مکالمے کا موقع ملا۔ غیر سیاسی اور غیر سرکاری موقف سامنے آیا۔ بلوچ صحافی خوف و ہراس کی فضا میں پیشہ وارانہ ذمے داریاں پوری کررہے ہیں۔ گزشتہ سات سال کے دوران 37 صحافی شہید ہوچکے ہیں جن کو ابھی تک معاوضہ نہیں ملا۔ مقامی اخبارات انتہا پسند گروہوں کے بیانات شائع کرنے پر مجبور ہیں حالانکہ عدلیہ نے دہشت گرد تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر پابندی عاید کررکھی ہے۔ بلوچ صحافیوں کو گلہ ہے کہ پاکستان کے میڈیا کے سرکاری اور نجی ادارے بلوچستان کی خبروں کو رپورٹ نہیں کرتے لہذا بلوچ صحافت کو بھی پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے اجلاس کوئٹہ میں نہیں ہوتے۔ بلوچستان میں موجودہ عسکری ادارے مقامی صحافیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال تشویشناک ہے۔ عوام کے ذہنوں میں انتخابات کے بارے میں کنفیوژن اور خوف پایا جاتا ہے۔ انتہا پسند سیاسی جماعتوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کا صوبہ پنجاب کی سرپرستی کی وجہ سے ترقی کررہا ہے جبکہ بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ کوئٹہ سے کراچی اور لاہور تک موٹر وے تعمیر کی جائے تاکہ رابطوں کے راستے کھلیں۔ بلوچ صحافیوں کا لہجہ تلخ تھا جو قابل فہم ہے۔ لاہور کے قد آور دانشور صحافی جذباتی ہوگئے۔سینئر صحافی نے بلوچ صحافیوں کو بتایا کہ بلوچستان چونکہ معاشی اور تجارتی لحاظ سے پسماندہ ہے اس لیے نجی چینل اپنے کمرشل مفادات کے تحت بلوچستان کو کم وقت دیتے ہیں۔ ملاقات کے دوران طے پایا کہ کوئٹہ کے صحافی لاہور کا دورہ کریں تاکہ پاکستان اور بلوچستان کے بارے میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔
بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی نے چیف منسٹر ہاﺅس میں صحافیوں کیلئے پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ انکی گفتگو بے ساختہ اور بلاتکلف تھی۔ سب صحافیوں سے بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ نواب صاحب 13زبانیں جانتے ہیں ان کی باتوں میں گہرائی اور دانائی ہوتی ہے۔ ان کو بتایا گیا کہ عوام ابھی تک اس شک میں مبتلا ہیں کہ کوئی بڑی سیاسی شخصیت دہشت گردی کا شکار ہوگی اور انتخابات ملتوی ہوجائینگے۔ نواب صاحب نے کہا ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ انتخابات ہر صورت وقت پر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پریس کلب کے عہدیدار شہید ہونیوالے صحافیوں کی فہرست فراہم کردیں تو حکومت ان کو فوری معاوضہ ادا کردیگی۔ نواب باروزئی نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کی کنجی پنجاب کے پاس ہے مگر میاں نواز شریف بلوچستان کی تاریخ اور سیاست کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔ عشائیے میں بلوچستان کے چیف سیکریٹری بابر یعقوب خٹک بھی موجود تھے انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کا انتظامی ڈھانچہ کمزور ہے جسے مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے وفاقی حکومت تجربہ کار افسروں پر یہ پابندی عائید کرے کہ وہ دو سال بلوچستان میں خدمات انجام دیں تاکہ صوبائی ملازمین انکے تجربے سے سیکھ سکیں۔ صحافیوں کا دورہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ بلوچستان کے زمینی حقائق کو سمجھنے کا موقع ملا۔ حکومتیں اگر بین الصوبائی وفود کے تبادلے پر توجہ دیں تو مختلف صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی کے جذبات فروغ پاسکتے ہیں۔