جب فلمی صنعت کو اپنی بقاءکی جنگ کے لیے میدان میں آنا پڑا نعیم ہاشمی قومی فلمی صنعت کے دفاع کے لیے ہر اول دستے میں شامل رہے ۔ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے نعیم ہاشمی مولانا آزاد سے شورش کاشمیر ی تک اور اے حمید سے ظہیر کا شمیری ‘ سیف الدین سیف ‘ قتیل شفائی‘ تنویر نقوی‘ اور ریاض شاہد جیسے اہل قلم کے ہم محفل رہے ۔اداکار کی حثییت سے انہوں نے 100 کے قریب فلموں میں اہم ترین رول ادا کئے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ جس فلم میں کام کرتے اس فلم کے شعبہ تحریر میں انکے مشورے اور رہبری ہمیشہ مشعل راہ ہوتی۔ پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر سب سے پہلے فلم بنانے کا اعزاز بھی نعیم ہاشمی کے حصے میں آیا ہے ”انقلاب کشمیر “ نام کی فلم میں نعیم ہاشمی کے درد مند دل نے وہ سارے زخم سینما سکرین پر بکھیر دئیے جو بھارت کے ظالم ہاتھوں نے کشمیری مسلمانوںکے جسم اور روح پر لگائے۔ کشمیر کے دکھ کی وہ پہلی تصویر تھی جو نعیم ہاشمی نے اقوا م عالم کے سامنے رکھی۔ اسکے بعد مسئلہ کشمیر کو اس دور کے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا نے اپنے اپنے انداز میں آگے بڑھایا۔ کمر شل فلموں میں ”خاتون ،چھوٹی بیگم ، سرفروش ، ایاز، اور جادوگر “ وغیرہ ان فلموں میں شمار کی جاتی ہیں جن کے حوالے سے نعیم ہاشمی نے پاکستانی عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کی۔ ان فلموں کا ذکر اس دور کی قابل ذکر فلموں میںہوتا ہے۔ اسکے بعد ”زمین“سے”بنارسی ٹھگ“تک بیسیوں فلمیں انکے فنکارانہ مقام کا قابل فخر اظہا ر ہیں۔ نعیم ہاشمی نے اپنے سرمایا سے نان کمرشل فلم ”نگار“ بنائی۔ ”چنگیز خان“لکھی ”جادوگر“اور ”صبح کہیں شام کہیں“ لکھی یہ وہ فلمیں ہیں جو انکی اصل تصویر کو سامنے لاتی ہیں کہ وہ کیا تھے اور کیا چاہتے تھے۔بھارت کے تجربہ کارہدایت کا ر نذیر کے کیمپ میں شمولیت کے بعد نعیم ہاشمی ایک طرح سے انکے ادارے کے ایک ”تھنک ٹینک“ کی حثییت حاصل کر گئے۔ کہانی سے لے کر فلم کی تکمیل تک کوئی بھی کام انکے مشورے کے بغیر نہیں ہوتاتھا۔ موسیقی ‘ شاعری ‘ اداکاری‘ ایڈیٹنگ‘ ہر شعبے میں نذیر صاحب کیلئے نعیم ہاشمی کا مشورہ ضروری ہوتا تھا۔ لوگ تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ ٹائٹل پر ن©ذیر صاحب کا نام ہوتا ہے ، باقی ہر کام نعیم ہاشمی کا مرہون منت ہوتا ہے۔
ایک محفل میں موسیقار جی اے چشتی نے کچھ اس طرح کا اظہا رکیا تھا ”آقا ئے دوجہاں “ کے حضور نعیم ہاشمی نے دل کی گہرائیوں سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے جب ”یثرب کے والی“ پکارا تو پوری کائنات گونج اٹھی‘ اور “نورالسلام“ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک یادگارفلم کا نام مل گیا۔اسکے بعد جب کبھی کسی فلم میں مذہبی جذبات کو نظم کے قالب میں ڈالنے کی ضرورت پیش آئی نعیم ہاشمی کے دل سے اٹھی ہوئی صدا”شاہ مدینہ “ کی گونج ضرور سنائی دی۔لکشمی چوک کے ہوٹل کنگ سرکل کا تذکرہ کئے بغیر ماضی کا احاطہ ممکن نہیں۔کنگ سرکل وہ ریسٹورنٹ تھا جس میں اس دور کی ہر قابل ذکر فلمی اور ادبی شخصیت کی نشست ضرور ہوا کر تی تھی۔ نعیم ہاشمی بھی یہاںآنے والے خاص لوگوں میں شامل تھے۔انکی محفلیں رات گئے تک جاری رہتی تھی جن میں حبیب جالب ، سیف الدین سیف، حسن طارق ، ظہیر کاشمیری، مشیر کاظمی، پرویز چشتی، ریاض شاہد ،ایم اسماعیل ، ظہورشاہ،اورکبھی کبھار آغا شورش کاشمیری بھی شامل ہو جاتے تھے۔
نعیم ہاشمی نے بطور فلم ساز ،اداکار، گیت نگار، ادیب، ہدایت کار ایک بھرپور اورقابل فخر زندگی گزاری۔میں نے جب تک دیکھا انہیں سب کا ہمدرد اور مخلص ہی پایا۔اب ایسے لوگ کہاں؟ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم زندگی میں ایسے لوگوں کو ان کا جائز مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے،اور جب وہ لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ان کو سر آنکھو ں پر بٹھانے کے لیے ان کی تلاش میں نکلتے ہیں مگر اس وقت تک ہماری نظر بھی دھندلا چکی ہوتی ہے اور وہ بہت دور جا چکے ہوتے ہیں۔نعیم ہاشمی نے ایسے بہت سے ہنر مندوں ، قلمکاروں ، اداکاروں کو فلمی صنعت سے متعارف کرایا جو آگے بڑھنے کی آرزو میں تھے ۔ ان میں شاہینہ ، حبیب ، رضیہ ، رخسانہ، رخشی ہدایت کار رزاق ،آئرین پروین، شوکت علی اور اداکار داﺅد شامل تھے۔داﺅد کو اس وقت کے مقبول ترین ہیرو درپن کے مقابلے میں ”نورالسلام “ میں ایک اہم رول دیا گیا۔موسیقار صفدر حسین جن کی پہلی فلم ”ہیر“ تھی بخشی وزیر جو ایک صاحب طرز موسیقار کی حثییت سے بہت مقبول ہوئے ،نعیم ہاشمی کا ہاتھ پکڑ کر فلم میں آئے۔ نعیم ہاشمی کی حیثیت فلم کی رہگزر پر ایک ایسے سایہ دار درخت کی طرح تھی جس کے سائے میں کتنے ہی مسافروں نے اپنی گرم دوپہریں گزاریں اوردم لے کر اپنی منزل تک پہنچے۔ ان مسافروں میں بعض ایسے بھی تھے جو راستے کی دھوپ سے بچنے کے لیے جاتے ہوئے اس درخت کی شاخیں بھی توڑ کر لے گئے۔
30سال تک فلمی دنیاپر راج کرنے والے فنکار 27اپریل 1976ءکو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024